Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیٹو مشرق وسطیٰ

حسن ناصر الظاہری۔المدینہ
گزشتہ ہفتے’’ مشرق وسطیٰ اتحاد ‘‘ (نیٹو مشرق وسطیٰ)کا مسئلہ سیاسی اور ابلاغی حلقوں پر چھایا رہا ۔ یہ اتحاد خلیج کے عرب ممالک اردن ، مصر اور امریکہ پر مشتمل ہو گا ۔ اس کا بنیادی مقصد ہر طرح کی دہشتگردی کا مقابلہ ، علاقائی اور بین الاقوامی امن ، استحکام اور ترقی کا حصول ہو گا۔اس کی تجویز ریاض میں مسلم عرب رہنمائوں اور سربراہوں سے امریکی صدر ٹرمپ کی ملاقات کے موقع پر رکھی گئی تھی ۔ مذکورہ ممالک نیٹو مشرق وسطیٰ کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی شاہراہ پر گامزن ہیں ۔ طے کیا گیا ہے کہ 2019ء کے شروع میں اسے عملی شکل دیدی جائیگی ۔ گزشتہ ہفتے نیویارک میں مذکورہ ممالک کے وزرائے خارجہ نے انتہائی اہم اجلاس کیا ۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے فروغ اور خطے کے خلاف ایران کی عیارانہ سرگرمیوں سے نمٹنے کیلئے اتحادِ مذکور کی داغ بیل ڈالنے پر تبادلہ خیال کیا۔امریکہ کا خیال ہے کہ یہ اتحاد خلیج کے علاقے کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے سلسلے میں مضبوط دیوار ثابت ہو گی ۔ اس کی بدولت استحکام کو متزلزل کرنے والی ایرانی سرگرمیوں پر نظر رکھی جا سکے گی ۔ یہ اتحاد بڑی حد تک نیٹو جیسا ہو گا ۔ اس سے ایرانی نظام پر ضربِ کاری لگے گی یا یوں کہئے کہ اس سے ایران کو بڑا درد ہو گا ۔ یہ منصوبہ ایران کی اُن سازشوں کو تہس نہس کر دے گا جس کے تحت وہ خلیج کے علاقے میں ’’ شیعی ہلال‘‘ کا نقشہ مرتسم کرنے میں لگا ہوا ہے جس کے تحت وہ خطے پر کنٹرول کرنے کا چکر چلائے ہوئے ہے ۔
ایران افغانستان سے لیکر بحیرہ روم اور عراق سے لیکر لبنان تک اپنا اثر و نفوذ قائم کرنے کے درپے ہے ۔ ایران پاسداران انقلاب کے کمانڈر محمد علی جعفری نے اس کا اعتراف یہ کہہ کر کیا کہ شام ، یمن ، عراق اور لبنان میں مداخلت شیعی ہلال نقشے کے تحت کی جا رہی ہے ۔ ایران ، افغانستان اور شیعہ بستیوں والے علاقوں کو بھی اس کا حصہ بنانا چاہتا ہے ۔ 
بعض تجزیہ نگاروں نے جو کچھ کہا ہے مجھے اس سے اتفاق ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر تمام ممالک اس اتحاد کے پرچم تلے جمع نہ ہوئیں یا سیاسی یکجہتی رکھنے والے فریق اس کا حصہ نہ بنیں تو ایسی صورت میں یہ اتحاد پھس پھسا ثابت ہو گا ۔ اس میں ایسے کسی بھی ملک کی شمولیت پُر خطر ثابت ہو گی جو ایران کو پُرخطر نہیں سمجھتا اور جو ایران کو لگام لگانے میں یقین نہیں رکھتا ۔ میں ایسے کسی ملک کا نام نہیں لینا چاہوں گا ۔ مجھے نہیں پتہ اس نکتہ کو مدِ نظر رکھا گیا ہے یا نہیں۔

شیئر: