Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گزشتہ صدی کا عظیم ترین کارنامہ

***فہد عامر الاحمد ی۔الریاض***
پانامہ نہر بحرالکاہل اور بحر اٹلانٹک کو جوڑے ہوئے ہے ۔ امریکی انجینیئرز سوسائٹی نے 20ویں صدی میں پانامہ نہر قائم کر کے عظیم الشان کارنامہ انجام دیا تھا۔اس نہر کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے عالمی نقشے پر نظر ڈالنی ہو گی ۔ نہر پانامہ نہر سویس سے کسی قدر کم اہم نہیں ۔ نہر سویس نے مشرق کو مغرب سے جوڑ کر تجارتی جہازوں کو برِ اعظم افریقہ کا چکر لگانے کی زحمت سے بچایا ۔ اگر نہرپانامہ نہ بنتی تو ایسی صورت میں جہازوں کو جنوب کا رخ کر کے پورے جنوبی امریکہ کا چکر لگانا پڑتا ۔ یہ سفر 45دن میں طے ہوتا ۔ نہر پانامہ کی بدولت تجارتی جہاز بحیر اٹلانٹک سے 12گھنٹے کے اندر بحر الکاہل پہنچ جاتے ہیں ۔ پانامہ کا انتخاب اس وجہ سے کیا گیا کیونکہ یہ بحر الکاہل اور بحر اٹلانٹک کو جوڑنے والا سب سے چھوٹا پوائنٹ تھا۔اس کا ارض 65کلومیٹر ہے ۔ قدیم ہندی لغت میں پانامہ کے معنی ’’2سمندروں پر سایہ فگن زمین ‘‘کے آتے ہیں ۔ 
نہر پانامہ کا قصہ 137برس قبل اُس وقت شروع ہوا جب اہل فرانس نے اس کی تجویز پیش کی ۔ اہل فرانس اسی وقت مصر میں نہر سویس سے فارغ ہوئے تھے ۔ انہوں نے 1881ء میں نہر پانامہ کی کھدائی کا کام شروع کیا البتہ زبردست جانی و مالی نقصان کے باعث 1889ء میں وہ اس منصوبے سے پسپا اختیار کرگئے ۔ اس وقت پانامہ کولمبیا کا حصہ ہوا کرتا تھا ۔ امریکہ نے نہر پانامہ تیار کرنے کی پیشکش اس شرط کے ساتھ کی کہ اسے نہر چلانے کی اجارہ داری حاصل ہو ۔ امریکہ کو اس نہر سے بہت زیادہ دلچسپی ہوئی کیونکہ اس میں اس کا بڑا فائدہ تھا ۔ اس کے قیام سے قبل اس کے تجارتی جہازوں کو نیویارک سے لاس اینجلس کا رخ کرنا پڑتا تھا ۔ کولمبیا نے امریکی پیشکش ٹھکرائی تو امریکہ نے پانامہ کے باشندوں کو علیحدگی پر اکسایا ۔ پانامہ کولمبیا سے الگ ہو گیا۔ امریکہ نے اسے تسلیم کر لیا ۔ تسلیم کرنے کی وجہ پانامہ کی قیادت سے نہر پانامہ منصوبے کی منظوری کرنا تھا ۔ 
1989ء تک امریکہ پانامہ نہر پر اجارہ داری قائم کئے رہا ۔اس کے 20برس بعدامریکہ نے نہر کا انتظام پانامہ کے حوالے کر دیا۔تب سے یہ منی لانڈرنگ اور منشیات کی اسمگلنگ کے ساتھ آمدنی کا نیا ذریعہ بن گئی۔ جس طرح الجزیرہ چینل قطر کے چہرے کا دوسرا رخ بنا ہوا ہے، اسی طرح نہر پانامہ اپنے قیام کی منظوری کیلئے اپنی ریاست کا دوسرا چہرہ بنا ہوا ہے ۔ 
 

شیئر: