Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب اور ریاست کی اسلامی شناخت

محمد السعیدی۔الوطن
(پہلی قسط)
    بیرون مملکت بعض عرب اور مسلمان جب یہ سوال کرتے ہیں کہ ’’کیا سعودی عرب سیکولر اسٹیٹ میں تبدیل ہوگیا ہے؟‘‘تو مجھے قلبی اذیت ہوتی ہے۔ دراصل منفی تشہیری مہم نے سعودی عرب کی تصویر بگاڑ دی ہے۔ جب میں سوال کرنیوالوں سے اس تاثر کی وجہ دریافت کرتا ہوں توپتہ چلتا ہے کہ ریاست موافق اور ریاست دشمن میڈیا نے اس حوالے سے لوگوں کا ذہن بنانے میں حصہ لیا ہے۔ میں مذکورہ سوال کرنیوالوں سے کہتا ہوں کہ سعودی عرب کی اسلامی شناخت ماضی کی طرح آج بھی قائم ہے۔ اسکے برعکس جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ سعودی عرب سیکولر ریاست میں تبدیل ہوگیا ہے وہ غیر منصفانہ ، نفرت انگیز اور اجرتی صحافیوں کا کرشمہ ہے۔ میں اس قسم کے عناصر کو عیار اور مکار کہنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا۔وجہ یہ ہے کہ ان میں سے بعض بلند قامت ہونے کے باوجود بدنیت ہیں۔ ان کا مقصد نہ تو اصلاح اور نہ ہی نصیحت کرنا بلکہ ریاست کے لوگوں میں مزید تفرقہ پیدا کرنا اور فساد برپاکرنا ان کا نصب العین ہے۔ یہ لوگ ناکام ہونگے۔ان کی افواہیں دم توڑیں گی۔انہیں اپنے حسد اور اپنی جلن کے سوا کوئی چیز ہاتھ نہیں آئے گا۔
    میرا مشاہدہ بتاتا ہے کہ سعودی عرب میں ان دنوں نظر آنے والے کھلے پن سے پہلے بھی یہ لوگ سعودی عرب کے مداح نہیں تھے۔ یہ پہلے بھی سعودی عرب کا دست و بازو کبھی نہیں بنے۔ ان لوگوں نے ہمیشہ سعودی عرب کی شناخت مجروح کرنے کا مشن چلایا۔مختلف شکلوں میں مملکت کیخلاف تنقید کے تیر برساتے رہے۔
    یہ بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ یہ سب ایک درجے کے نہیں ۔ ان میں سے بعض فریب خوردہ ہیں، بعض عیاری و مکاری کا وصف رکھتے ہیں البتہ ان سب کے درمیان قدرے مشترک یہ ہے کہ یہ کبھی بھی سعودی عرب کے خیر خواہ نہیں رہے۔ آج جو لوگ سعودی عرب پر سیکولرریاست میں تبدیل ہونے کی بھپتیاں کس رہے ہیں اور اس کے خلاف دروغ بیانیوں سے کام لیکر عوام الناس کو مشتعل کررہے ہیں،یہ پہلے بھی سعودی عرب کی قدروقیمت گھٹانے کا مشن چلاتے رہے ہیں۔
    اصل مشکل کیا ہے؟ یہ بیحد اہم سوال ہے۔ دراصل اندرون و بیرون ملک منتخب اسلامی حلقوں کی جانب سے سعودی عرب کے خلاف شکوک و شبہات پھیلانے کا سلسلہ چلتا رہا ہے۔ سعودی عرب نے ان عناصر کے منفی اثرات سے خود کو بچانے کیلئے اسلامی حلقوں سے منسوب شخصیات سے فائدہ اٹھانا چاہالیکن ان عناصر نے سعودی عرب کے فیصلہ سازوں کا ساتھ نہیں دیا۔ مجبوراًلبرل ذہن رکھنے والوں کا سہارا لیا گیا۔ ان لوگوں نے ریاست کی ضرورتوں اور تقاضوں کو سمجھنے میں لچکدار رویہ اپنایا۔ معروف اسلامی حلقوں کے برعکس ان کا رویہ مثبت رہا، حقیقت پسندانہ رہاجبکہ معروف اسلام پسندوں نے سعودی فیصلہ سازوں کے ہر فیصلے کی مخالفت کی ، اس میں کیڑے نکالے، شکوک و شبہات پیدا کئے۔ اسلام اور اس کے پیروکاروں کیلئے سعودی عرب نے جو کچھ کیا تھا اسے شک کے دائرے میں لاتے رہے۔
    کسی بھی ریاست کے نظام کی بابت یہ فیصلہ ہم کب اور کیسے کرینگے کہ آیا وہ اسلامی شناخت رکھنے والی ریاست ہے یا وہ سیکولر ریاست کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے؟
    کسی بھی ریاست کے نظام کو اسلامی یا عیسائی یا مذہبی یا سیکولر یا سوشلزم سے منسوب کرنے کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ اس ریاست کا نظام متعدد عناصر کا نمائندہ ہو ۔ کسی ایک بنیاد پر نہ تو کسی ریاست کو اسلامی کہاجاسکتا ہے اورنہ ہی سیکولر۔ سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ متعلقہ ریاست کی نشوونما کے فکری اصول کیا ہیں؟ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ ریاست قوانین کہاںسے اخذ کررہی ہے۔ یہ بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ آیا وہ ریاست اپنے قوانین اور اپنے آئین پر عمل بھی کررہی ہے یا نہیں۔ اگر ہم نے کسی ایک عنصر پر اکتفا کرکے فیصلہ کرلیا تو ہم بلا شبہ غلط فیصلہ کرینگے اور ہم سے انصاف کا دامن چھوٹ جائیگا۔
(باقی آئندہ)
 
مزید پڑھیں:- - - -وطن عزیز کی ترقی کیلئے اربوں ریال کے منصوبے

شیئر: