Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دو ہستیوں کیلئے عمر بھرکی اذیت و کرب کا سامان ، طلاق

تسنیم امجد۔ ریاض
عذرا کی زندگی مثالی انداز سے گزر رہی تھی۔ ہم سب اس پر رشک کرتے تھے لیکن وہ خاموش رہتی۔ اس کی اپنی ہی سوچیں تھیں ۔وہ کسی سے زیادہ بات نہیں کرتی تھی۔میں خوش قسمت تھی کہ اس نے میرا انتخاب ایک مخلص سہیلی کی حیثیت سے کیا۔ ایک دن اس کی خاموشی ٹوٹی اوروہ کہنے لگی میں ایک متوسط گھرانے سے ہوں۔ میرے والد صاحب کسی دفتر میں ہیڈ کلرک تھے۔تنخواہ اتنی تھی کہ بمشکل گزارہ ہوتا تھا۔ مہینے کی آخری تاریخوں میں ادھار کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔اس طرح پہلی کو تنخواہ ملنے پر ادھار اترتا پھر گاڑی آگے چلتی۔بجلی کا بل، گیس کا بل ،ہم بچوں کی فیسیں اور اگر کبھی خاندان میں شادی یا غمی ہو جاتی تو ادھار پہلے ہفتے میںہی شروع ہو جاتا۔یوںآپ سمجھ جائیں کہ کن حالات کا سامنا ہوتا ہو گا۔
میں اس ما حول سے گھبرا چکی تھی۔بمشکل بی اے کیا اور نوکری کی تلاش میں ادھر ادھر بھٹکنے لگی۔شکل و صورت میں اچھی تھی، اس لئے اکثر یہی محسوس ہوتا کہ گہری نظریں میرے تعاقب میں ہیں۔راتوں کو چھپ چھپ کے روتی اور اللہ کریم سے دعائیں مانگتی کہ ہمارے ان حالات کا مداوا ہو جائے۔ادھراماں کو فکر تھی کہ میری رخصتی کا کچھ سلسلہ بن جائے۔مجھ سے چھوٹی خالہ زاد کی شادی دھوم دھام سے ہو گئی۔ اس سے اماں اور بھی اداس رہنے لگیں۔انہیں سمجھایا کہ بھئی آپ کسی کی باتیں نہ سنیںلیکن پھر بھی گھر میں یہ ذکر چھڑ جاتا۔
مجھے جس کمپنی میں ملازمت ملی اس میں میرے کولیگ نے میرا تعارف اپنے ایک دوست نعیم سے کرایا۔ وہ بڑے گھر کا بیٹا تھا۔مختصر یہ کہ اس کے بڑے بھائی ایک دن رشتہ لے کر آ گئے۔میرے انکار کے باوجود اماں نے ہاں کر دی۔میں کچھ کما کر گھر کے حالات سد ھارنا چاہتی تھی لیکن گھر والے خوش تھے کہ خالہ کے مقابلے کا بر ہے۔برادری میں نام ہو گا۔
نعیم نے مجھ سے انکار کی وجہ پو چھی تو میں نے انہیں سچ سچ بتا دیا کہ میں اپنے حالات ٹھیک کرنا چاہتی ہوں ۔گھر میں بڑی ہوں،اس لئے مجھے احساس ہے۔اس نے وعدہ کیا کہ میں اس سلسلے میں آپ کی مدد کروں گا۔داماد بھی تو بیٹا ہوتا ہے۔
خیر میری شادی ہو گئی۔اماں فخر سے سر اٹھا کر جینے کے قابل ہو گئیں۔ نعیم شروع شروع میںایک اچھے شوہر ثابت ہوئے ۔انہوں نے میرے ساتھ اچھے دوستوں کی طرح اپنا وعدہ نبھایا لیکن میرے جیٹھ اور جٹھانی کو یہ سب اچھا نہیں لگتا تھا۔انہوں نے ہماری زندگی میں مسائل کھڑے کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔تلخیوں سے گھبرا کر نعیم صاحب نے اپنا تبادلہ کراچی کروا لیا اور ہم ادھر چلے آئے۔یہاں آنے کے بعد جیٹھ جی تو موجود نہیں لیکن میرے شوہر بالکل بدل چکے ہیں۔انہیں اپنا وعدہ یاد نہیں۔بات بات پر تلخ ہو جاتے ہیں۔مجھے ان کے اس رویے پر افسوس ہے۔عذرا اکثر صبح ا لکافیہ گیدرنگ میں بھی نہ آتی۔ایک دن خبر ملی کہ عذرا آج صبح کی فلائٹ سے لاہور چلی گئی ہے۔ ڈرائیور نے ایک بند لفافہ دیتے ہوئے کہا کہ اچانک ہی باجی کا جا نا ہو گیا۔اس کا خط پڑھتے ہوئے میری آنکھوں کے سامنے اندھیراچھا گیا۔اس نے لکھا تھا کہ نعیم اور میرے درمیان علیحدگی ہو گئی ہے۔بس مجھ سے یہی کہا کہ میں تمہیں خوش نہیں رکھ سکتا۔بہتر ہے اپنی مرضی کی زندگی جی لو۔آگے کیا لکھا تھا وہ پڑھنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی۔آخر میں یہی لکھا نظر آیا کہ لاہور آنا ہو تو ضرور ملنا۔
ہمارے گرد ایسی بیشتر کہانیاں عذرا کی مانند اپنی بے بسی پر معاشرے کی بے حسی پرشکوہ کناں ہیں۔عذرا ایک اچھی بیوی ہوتے ہوئے بھی میکے کی محبت میں اپنا گھر نہ بچا سکی۔کاش !وہ اس حقیقت کو جان لیتی کہ داماد بیٹا نہیں بن سکتا اگر ایسا ہوتا تو بیٹی کی پیدائش والدین کو کبھی نہ کھلتی۔ 
ازدواجی زندگی بھی محبت کا ایک انداز ہے جو توجہ چا ہتی ہے۔طلاق کی زیادہ تر وجہ باہمی اعتماد کا ٹوٹنا ہے۔فریقین کو ایک دوسرے سے توقعات عام تعلقات سے منفرد ہوتی ہیں۔زندگی کے ہر رنگ میں کامیابی کی اولین شرط" اعتماد " ہے۔رشتوں کے اس بندھن کو توڑنا بڑا مشکل ہے لیکن سسک سسک کر جینا اور بھی کربناک ہے۔اندر کی ٹوٹ پھوٹ انسان کو زندہ درگور کر دیتی ہے۔محبت کا اظہار بھی چا پلوسی معلوم ہوتا ہے۔
اس رشتے کی نو عیت ہی ایسی ہے کہ داماد سے ڈر لگا رہتا ہے ورنہ فریقین ایسی شادیوں میں تحریری عہد کر لیں۔بیٹیوں کو شادی کے بعد میکے سے فاصلہ ہی رکھنا چاہئے ۔ زندگی کے حقائق کو مد نظر رکھ کر اپنا سفر جاری رکھنے میں ہی عافیت ہے۔ ازدواجی زندگی میں ایک دوسرے کی مرضی اور مزاج و منشا کا احترام ہی کامیابی کی کنجی ہے۔طلاق ایک گھناﺅنا فعل ہے۔جب جذبوں میں احترام ختم ہو جاتا ہے تو طلاق کی صورت میں دو ہستیوں کے لئے عمر بھر کی اذیت و کرب کا سامان ہو جاتا ہے ۔دوسری و تیسری شادی تو ہو ہی جاتی ہے لیکن مسائل اس طرح بڑھ جاتے ہیں کہ کئی سگے و سوتیلے رشتے وجود میں آ جانے سے زندگی غیر متوازن ہو جاتی ہے۔
دوسروں کے تجربات ہماری رہنمائی کے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ہمیں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے کہ برسوں سے داماد کا ہر روپ ہمارے سامنے ہے۔بیٹیوں کے اچھے نصیب کی خواہش دل میں کروٹ لیتی رہتی ہے ، بیٹی کی شادی کے بعد دھڑکا لگا رہتا ہے کہ داماد کو کوئی بات بری نہ لگ جائے، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ہماری کسی بات کا شاکی ہو کر ہماری بیٹی کے ساتھ بدسلوکی ، ظلم و زیادتی شروع کر دے۔یوں بیٹی کی شادی سے پہلے اس کے نصیب کے بارے میں فکراور شادی کے بعد دامادکے تیوردیکھتے دیکھتے ماں باپ کی زندگی تمام ہوجاتی ہے ۔
آج کی تحریر کا لب لباب یہی ہے کہ ہر بیٹی کو تربیت کے دوران یہ احساس ضرور دلائیں کہ اسے کبھی میکے کے لئے اپنے شوہر سے کسی تعاون کی امیدنہیں رکھنی چاہئے ۔بیٹی کا اپنے گھر میں بسے رہنا ہی والدین کی خوشی ہے اور یہی والدین پر اس کا احسان ہے۔

شیئر: