Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

غزہ …اسرائیلی اور امریکی یہودی کیا سوچ رہے ہیں؟

***شریف قندیل۔المدینہ***
الشرق الاوسط اخبار نے یہودی امریکی تنظیم ’’جی اسٹریٹ‘‘کے حوالے سے رائے عامہ کا ایک تہلکہ خیز جائزہ شائع کیا ہے ۔ یہ جائزہ چونکا دینے والے غیر معمولی حقائق پر مشتمل ہے ۔ غالباً اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ امریکہ کے 78فیصد یہودیوں نے  دو ریا ستی حل کی تائید کی ہے اور اس بات کی حمایت کی ہے کہ مشرقی القدس کو فلسطین کا دارالحکومت بنایا جائے۔
میں اس موقع پر یہ سوال نہیں کرو ںگا کہ امریکہ کے کتنے مسلمان دو ریاستی حل اور مشرقی القدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کے حامی ہیں ۔ میں امریکی مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان تقابل بھی نہیں کرونگا البتہ عرب ممالک کے کتنے مسلمان اس کے حق میں ہیں ، اس سوال کا جواب ضرور حاصل کرنا چاہوں گا ۔ 
بادی النظر میں ایسا لگے گا کہ دوریاستی حل اور مشرقی القدس کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے کی رائے رکھنے والے عربوں کی تعداد امریکہ کے یہودیوں کی تعداد (78فیصد )سے کم ہی ہو گی تاہم باریک بینی سے دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ القدس کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے کی تائید کرنیوالے عربوں کی تعداد 95فیصد سے زیادہ ہو گی ۔
آپ وقتاً فوقتاً برپا ہونیوالے سیاسی شوروشغب کو چھوڑ دیجئے، آپ میڈیا میں ہونیوالے ہنگامے کو بھی بھول جائیے۔ آپ غیر جانبدار کسی بھی ریسرچ سینٹر سے درخواست کیجئے کہ وہ عرب شہروں اور قریوں میں جاکر لوگوں سے عرب اسرائیل کشمکش کے حل کی بابت ان کی سوچ دریافت کرے ۔ 
مذکورہ حل سے مختلف کسی بھی حل کی تائید کرنیوالوں میں سے 5فیصد بعض سیاستدانوں اور بعض ماہرین اقتصادیات کو الگ کر دیجئے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ القدس سے دستبردار یا مختلف حل کی تائید کرنیوالے ایک فیصد ہونگے۔یہ لوگ بھی نجی مفادات کے تحت ہی القدس اور فلسطین سے دستبرداری کی بات کرینگے ۔
اب آپ یہودی گروپوں کا رخ کریں ۔ ان سے بات کرکے آپ کو پتہ چلے گا کہ یہودیوں کے بڑے بڑے گروپ سمجھ رہے ہیں کہ دوریاستی حل نہ ہونے پر ایک ایسی ریاست معرض وجود میں آئے گی جو جنوبی افریقہ کی نسل پرست ریاست جیسی ہو گی اور اس کا خاتمہ یقینی ہو گا ۔ زیادہ بڑے گروپ یہ رائے دینگے کہ یہودی ریاست کا قیام صہیونی تحریک کے اصولوں کو زندہ درگور کرنے کے مترادف ہو گا ۔ 
ایک گروپ کے سربراہ اسرائیلی محکمہ خفیہ کے سابق سربراہ تمیر بادرو ہیں ۔ اس گروپ کا کہنا ہے کہ اگراسرائیل عربوں سے جدا نہ ہوا تو اس کے سامنے صرف ایک ہی راستہ ہو گا اور وہ یہ کہ کسی کائناتی معجزے کے تحت تما م عرب صفحہ ہستی سے ناپید ہو جائیں۔ چونکہ ایسا ہوگا نہیں لہٰذا اسرائیل کو ٹائم بم یعنی انسانی وجود سے نمٹنے کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔ دریں اثناء ایک یہودی ایجنسی نے نتنیاہو کو خبردار کیا ہے کہ امریکی یہودی اسرائیل سے دستبردار ہونے کی جہت میں دھماکہ خیز شکل میں آگے بڑھ رہے ہیں ۔ امریکی جامعات میں زیر تعلیم زیادہ تر یہودی نوجوان اسرائیل کو اپنا وطن نہیں مان رہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ لبرل ہیں لہٰذا انہیں اسرائیل سے دور رہنا ہوگا ۔ غزہ میں اسرائیل کے نئے آپریشن نے یہ پیغام دیا ہے کہ غزہ نئے دور میں داخل ہو گیا ہے ۔ اسرائیلی افواج کی گاڑی کا درانداز ی پر پکڑے جانا ، ایک افسر کا قتل اور ایک کا زخمی ہو جانا دسیوں اسرائیلیوں کی ہلاکت اور زخمی ہونے کا واقعہ ظاہر کررہا ہے کہ خوف نے توازن پیدا کر دیا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ 20فلسطینی بھی اس واقعہ میں شہید ہوئے ہیں ۔ 
 

شیئر: