Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مہذب معاشرے میں احتجاج کے پرامن طریقے ہیں،تشددجائز نہیں،پاکستانی ماہرین

مصطفی حبیب صدیقی۔کراچی
پاکستان کی معروف دینی اور علمی شخصیات نے احتجاج اورمظاہروں کے دوران املاک اور جان کو نقصان پہنچانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔اردونیوز کے سروے کے دوران ماہرین نے کہا ہے کہ احتجاج کیلئے پرامن طریقہ ہی ہونا چاہئے۔ہمارے ملک میں احتجاج کے لئے تربیت کا فقدان ہے۔
٭٭مفتی محمد نعیم :(دارالعلوم بنوریہ)
املاک کو نقصان پہنچانا اور توڑ پھوڑکرنا کسی بھی صورت جائز نہیں،یہ فساد فی الارض ہے،ایسے لوگوں کیخلاف قانو ن کو حرکت میں آنا چاہئے ۔ریاست کی ذمہ داری ہے کہ فساد پھیلانے والوں سے سختی سے نمٹے اور جن لوگوں کی املاک کا نقصان ہوا ہے انہیں پورا کرے۔سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کی حفاظت کرے،ان کی جان ومال عزت وآبرو کی ذمہ دار حکومت وقت ہے اس کے ساتھ ساتھ احتجاج اور مظاہروں کی آڑ میں اگر عوام کی املاک یا جان کا نقصان ہوتا ہے تو ریاست یا تو وہ نقصان خود پورا کرے یا پھر ان لوگوں سے پورا کروائے جنہوںنے املاک کو نشانہ بنایا۔
اصل میں اسلام میں ہر چیز کا اصول بتادیاگیا ہے ۔قانون کے دائرے میں ہی سب حقوق حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔اسلام امن کا داعی ہے ۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جس دین میں جنگ کے بھی آداب سکھائے گئے ہوں ،اس میں اپنی بات کہنے کا طریقہ نہ بتایاگیا ہو۔ہمارے ہاں احتجاج کی آڑ میں غریبوں کا نقصان کیاجاتا ہے جو شرعی اور قانونی ہر لحاظ سے ناجائز ہے۔علماء کو احتجاج اوراپنے مطالبات منوانے کے حوالے سے لوگوںکی تربیت کرنی چاہئے۔
٭٭عتیق الرحمن گیلانی(اسلامک اسکالر):
اسلام امن کا مذہب ہے ،اس میں ہر صورت میں لوگوں کا خیال رکھاگیا ہے،آپ دیکھ لیں کہ جنگ کے دوران بھی کہاگیا ہے کہ درختوں کو نہ کاٹو،خواتین وبچوں کو نہ مارو،تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی مذہب کے لوگوںکی املاک کو نقصان پہنچایاجائے۔انہیں مارا پیٹا جائے۔اصل میں اسلام کی غلط تصویر پیش کی گئی ہے،یہ معاملہ محض کسی عدالتی کیس کا نہیں بلکہ اس سے پہلے موجودہ حکومت جب اپوزیشن میں تھی تو اس نے بھی اسلام آباد میں 126دن کا دھرنا دیاتھا،املاک کونقصان پہنچایاتھا،کیا وہ غلط نہیں تھا؟اصل میں ہم دو رنگی اختیار کئے ہوئے ہیں۔آج اگر ہمارے وزیراعظم یہ کہتے ہیں کہ احتجاج نہ کیاجائے تو انہیںپہلے اپنے احتجاج اور توڑ پھوڑ پر معافی مانگنی چاہئے۔ہمارے ملک کا المیہ ہی یہ ہے کہ جب سیاستدان اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو وہ توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور جب وہی سیاستدان حکومت میں آجاتے ہیں تو پھر ان کے اصول بدل جاتے ہیں۔اگر یہ سیاستدان اور مذہبی رہنما اپنے کارکنان اور حامیوں کی صحیح تربیت کریں اور اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی احتجاج کا مہذب طریقہ اپنائیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ملک کی املاک کو نقصان پہنچے۔
٭٭ڈاکٹر ثوبیہ آفتاب( ماہر نفسیات):
پر امن احتجاج ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن حق پر ہوتے ہوئے بھی احتجاج میں ایسا عمل اختیار کرنا جس سے کسی انسان کو یا کسی کی املاک کو نقصان پہنچے ،اس کی نہ تو کوئی مذہب  اجازت دیتا ہے اور نہ ہی دنیا اور آخرت کا کوئی قانون اسے جائز قرار دیتا ہے۔ میری نظر میں ایسا طرز عمل نہ صرف مذہب اور قانون کی رو سے سراسر غلط اور ناجائز ہے بلکہ نفسیاتی پہلو سے بھی ایسا طرز عمل ایک صحت مند ذہن اور سوچ کی کمی اور روحانی طور پر کمزور شخصیت کی علامت ہے۔
اسے بھی پڑھئے:مصر سے 4ہزار سال پرانی حنوط شدہ بلیاں برآمد
 
٭٭بلقیس رحمن( سماجی رہنما ):
املاک کا نقصان قطعی جائز نہیں ہوسکتا ۔کوئی سی بھی دلیل لے آئیں۔یہ تشدد ہے اورجو چند لوگ ایسا کرتے ہیں وہ در حقیقت جنونیت اور دہشت ہے ۔احتجاج سب کا حق ہے مگر مدلل اور غیرمتشدد طریقے سے۔تشددکی صورت میں وہ احتجاج نہیں رہتا بلکہ جرم بن جاتا ہے جو کسی شہری کو زیب نہیں دیتا۔ اس سے نہ تومسئلے کا حل نکلتا ہے  اورنہ ہی صلح ہوسکتی ہے ۔مسائل کے حل یا اختلاف رائے کو ظاہر کرنے کیلئے تشدد ایک منفی رویہ ہے۔اگر بات صحیح ہے تو اسے صحیح انداز اور حکمت کیساتھ بیان کیا جاسکتا ہے جس میں ایک طریقہ پلے کارڈز کے ساتھ پرامن مظاہرہ ہوتا ہے۔دوسرا طریقہ بااثر افراد کی رائے کا پرچار کرنا اور متعلقہ افراد کے ساتھ لابنگ کرنا اور ایجوکیٹ کرنا ہوتا ہے۔یہ طریقہ ترقی یافتہ معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ہمارے جیسے ترقی پذیر معاشرے میںکم خواندگی کی وجہ سے سادہ لوگوں کو اکساکر غیرمہذب حرکتیں کرائی جاتی ہیں جن کا مقصد مطالبے سے کہیں زیادہ اپنی طاقت کا اظہار ہوتا ہے اورپاکستان میں یہ طریقہ خوب اچھی طرح سے اختیار کیاجاتا ہے چونکہ یہاں پر ایسے تمام عوامل موجود ہیںاس کی وجہ سے ایسے تمام طاقت کے مظاہرے آسان طریقے سے کئے جاتے ہیں۔
٭٭ڈاکٹر معروف (پروفیسر شعبہ تعلیم ،جامعہ کراچی):
احتجاج جذبات کا حصہ ہے اور جذبات ہی ایک زندہ انسان کی پہچان ہیںکیونکہ سناٹا صرف قبرستان میں ممکن ہے ،زندہ انسانوں  سے معمور معاشرے میں نہیں۔مگر جہاں تک احتجاج کے طریقے کا معاملہ ہے اس سے ہی ایک باشعور اور بے شعور انسان کی شناخت ہوتی ہے۔جمہوری اور مہذب معاشرے میں احتجاج اپنی بات متعلقہ افراد تک پہچانے کا ذریعہ ہے جس میں پلے کارڈز ،بینرز ،مائیکروفون کا استعمال کرتے ہوئے جلسے جلوس اور مظاہرے کئے جاتے ہیں۔آپ افراد،اداروں اور چیزوں کا سماجی بائیکاٹ کرکے بھی احتجاج ریکارڈ کراسکتے ہیں۔ماضی میں دفعہ 144کے نفاظ کے بعد،جس کے مطابق 4سے زائد افراد کا ایک ساتھ ایک جگہ جمع ہونا منع ہوتا ہے، احتجاج کرنے والوں نے 3،3افراد کو فاصلے سے کھڑا کرکے احتجاج کیاتھا۔اسی طرح کارٹونز کی مدد سے ،ہاتھوں کی زنجیر بناکر یا نعرے اور نغمے بناکر بھی احتجاج کیاجاسکتا ہے تاہم احتجاج کی آڑ میں کسی کی بھی ذاتی یا سرکاری املاک اور جان کو نقصان پہچانے کی کوئی بھی جائز تاویل پیش نہیں کی جاسکتی بالخصوص اسلامی تناظر میں کہ جہاں جنگ میں بھی خواتین ،بچوں ،بزرگوں اور حتیٰ کہ پودوں اور درختوں کو نقصان پہنچانے سے بھی منع فرمایاگیا ہے ۔
٭٭ڈاکٹر معین الدین ( ماہر تعلیم):
یہ کامن سینس کی بات ہے کہ احتجاج کی آڑ میں تشدد کسی بھی صورت میں جائز نہیں ۔پہلے تو یہ سوچا جائے کہ احتجاج کے دوران املاک کی توڑ پھوڑ میں اصل نقصان کس کاہو رہا ہے؟عام طور پر یہی کہاجاتا ہے کہ اپنی مرضی کیخلاف کوئی بات ہوئی تو وہ غصے کی حالت میں احتجاج کرتے ہوئے جلائو گھیرائو کرتے ہیں مگر میرا سوال ہے کہ اگر واقعی وہ جنونی ہوجاتے ہیں اور انہیں عقل نہیں ہوتی تو اپنی گاڑی یا موٹر سائیکل کیوں نہیں جلاتے؟اپنی دکان یا کیبن کو آگ کیوں نہیں لگاتے؟اس کامطلب ہے کہ غصہ نہیں ہے بلکہ ظاہر کیاجارہا ہے۔بعض اوقات محض تفریح میں بھی کچھ لوگ احتجاج کرنے نکل پڑتے ہیں کہ چلو اس بہانے کچھ مزے لیں گے مگر یہ نہیں سوچتے کہ احتجاج ہے کس کیخلاف اوروہ نقصان کسے پہنچارہے ہیں۔ بس نقصان پہنچانا ان کی نفسیات میں شامل ہوتا ہے۔احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ اور جلائوگھیرائو کی ایک وجہ ہمارے ہاں اخلاقی تعلیم کا فقدان بھی ہے۔جب ہم اسکول میںہوا کرتے تھے تو صبح سویرے اساتذہ ہمارے ناخن چیک کرتے،کپڑے دیکھتے،کلمہ سنتے،نعت طیبہ سنتے،پاکستانی ترانے کا احترام سکھاتے،ایک قطار میں چل کر اپنی کلاسوں تک جانا اور چھٹی کے وقت ایک قطار میںنکلنا سکھاتے۔ہمارے ملک کی عظیم شخصیات کے بارے میں بتایاجاتا اور ان کے عظیم کارناموں کو اپنانے کی ترغیب دی جاتی ۔
پہلے یونیورسٹی اور کالجوں میں یونینز ہوا کرتی تھیں ۔وہ تربیت کیاکرتی تھیں کہ احتجاج کیسے کیاجائے مگر پھر یونینیں بھی بدمعاشی پر اتر آئیں اور انجام کارانہیںپابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ میں خود اپنی یونین کا جنرل سیکریٹری تھا مگر ہمارا کام ایک دوسرے کی مدد کرنا ہوتا تھا۔ہم اپنے مطالبات منوانے کیلئے بھی مہذب طریقہ اپناتے تھے مگر اب طلبہ تنظیمیں دھمکیوں اور بدمعاشی سے کام لیتی ہیں تو تربیت کہاں سے ہوگی۔اب تو استاد خود ہی نقل کرکے پاس ہوتے ہیں، وہ معماران مستقبل کی کیاتربیت کریں گے۔میں اپنے بچپن کا بتاتا ہوں کہ جب میںپانچویں جماعت میں تھا تو اسکول میں جو ڈرامے ہوتے تھے، ان میں ہمیں مختلف شخصیات کے بارے میں بتایاجاتا تھا جس سے ہمیں سیکھنے کا موقع ملتا تھا مگر اب تو اسکولوں میں ہندوستانی گانوں پر ناچ گانے ہوتے ہیں، فحاشی ہوتی ہے، ایسے میں بھلا تربیت کہاں ہوگی۔ معذرت کیساتھ اب میڈیا بھی لوگوں کو بگاڑ رہا ہے ،میڈیا پر جتنا تشدد دکھایاجاتا ہے، وہ اتنا ہی ترقی کرتا ہے۔میڈیا بلیک میلر ہوگیا ہے۔میڈیا نے ہمارے عقیدے اور قوم کوبگاڑ دیا ۔

شیئر: