Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نام بدلنے کی ضد

***معصوم مراد آبادی ***
آنجہانی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی سے جب یہ مطالبہ کیاگیا تھا کہ وہ لکھنؤ کا نام بدل کر لکشمن پوری کردیں تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ مجھے تو لکھنؤ نے کامیاب کیا ہے اور میں اسی کی نمائندگی کرتا ہوں۔ بات آئی گئی ہوگئی تھی ۔ ان کے زمانے میں نہ تو کسی نے کسی شہر کا نام بدلنے کا مطالبہ کیا اور نہ ہی ان کی حکومت میں اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ لیکن اب آئے دن اترپردیش کی یوگی سرکار مسلم ناموں والے شہروں کے نام تبدیل کرکے انہیں ہندتومیں غرق کررہی ہے تو بی جے پی میں کوئی اس بات پر اعتراض کرنے والا نہیں ہے کہ یہ نام ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کے پیچھے صدیوں کی تاریخ پوشیدہ ہے۔ اس کے برعکس بی جے پی کے لوگ مسلم ناموں والے شہروں کے نام بدلنے کے لئے نئے نئے نام تجویز کررہے ہیں۔ گویا ان شہروں کے نام تبدیل کرنے سے ان کی قسمت بھی بدل جائے گی۔ یہ سلسلہ کہاں جاکر ختم ہوگا کسی کو نہیں معلوم۔ حالیہ عرصے میں اترپردیش کی یوگی سرکار نے جن شہروں کے ناموں کو تبدیل کیا ہے، ان میں مغل سرائے ، الٰہ آباد اور فیض آباد جیسے تاریخی شہر شامل ہیں اور اب جن شہروں کے نام بدلنے کی تیاری ہورہی ہے، ان میں آگرہ ، مظفرنگر، علی گڑھ، سلطان پور، مرزا پور اور شاہ جہاں پور جیسے درجنوں شہروں کے نام لئے جارہے ہیں جنہیں تبدیل کرکے ہندو ناموں سے پکارا جائے گا۔ ہوسکتا ہے یہ سلسلہ میرے آبائی شہر مرادآباد تک بھی پہنچ جائے جسے مغل شہزادے مراد کے سپہ سالار رستم خاں نے شہزادہ مراد کی نسبت سے مرادآباد سے منسوب کیا تھا۔ میں نے اپنے آبائی شہر میں اپنی ابتدائی زندگی کے 15برس گزارے ہیں اور اس شہر کے گلی کوچوں سے میری ایسی ہی شناسائی ہے جیسی کہ اپنے عزیز واقارب سے ہوتی ہے۔ اکثر غیر ملکی سفر کے دوران وہاں کے لوگ مجھے صرف ’مسٹر مرادآبادی‘ کہہ کر پکارتے ہیں کہ وہاں لوگوں کو ان کے ’سر نیم‘ سے پکارنے کا چلن ہے۔ اگر مرادآباد کا نام بھی محض اس لئے تبدیل ہوا کہ اسے ایک مغل شہزادے کے نام پر بسایا گیا تھا تو مجھے اپنی اس شناخت کے ختم ہونے کا خطرہ لاحق ہے جو گزشتہ 35برس کے دوران میں نے صحافت کے ایک طالب علم کے طورپر قائم کی ہے۔ اس صورت حال پر اپنے دوست شکیل جمالی کا یہ شعر مجھے یاد آتا ہے  ؎
یہ کس نے میرے نام کی تختی اتار لی 
یہ کون مجھ غریب کی پہچان کھا گیا 
سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کے انتقال کے بعد مودی سرکار نے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے پہلا کام یہ کیا تھا کہ نئی دہلی کے اورنگزیب روڈ کا نام بدل کر ڈاکٹر عبدالکلام روڈ کردیاگیا۔ اورنگزیب روڈ کے نام کی تبدیلی کی مخالفت اس وقت بھی ہوئی تھی لیکن اس میں ایسی شدت نہیں تھی، جو اس وقت الٰہ آباد اور فیض آباد کے نام تبدیل کردیئے جانے پر محسوس کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ بی جے پی سرکار ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت ہندوستان کی تاریخ اور تہذیب سے مسلمانوں کا نام ونشان مٹادینا چاہتی ہے۔ تاریخی کتابوں میں مسلم حکمرانوں کی حصولیابیوں کو نظرانداز کرکے انہیں ظالم اور جابر قرار دینے کی مہم مسلسل جاری ہے۔ اس مہم کی زد میں ٹیپو سلطان جیسا سورما بھی آگیا ہے جس نے انگریزوں کے دانت کھٹے کردیئے تھے۔  درحقیقت آج جن لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور ہے اور جو ہندتو کا پرچم لے کر تباہی پھیلانے نکلے ہیں، انہیں نہ تو تاریخ کا کوئی علم ہے اور نہ ہی وہ تہذیب وتمدن سے کوئی علاقہ رکھتے ہیں۔ 
آپ کو یادہوگا کہ پچھلے برس ہریانہ کی بی جے پی سرکار نے عدالتی کارروائی اور پولیس رپورٹنگ میں استعمال ہونے والے اردو اور فارسی کے الفاظ کو ہٹا کر ان کی جگہ ہندی اور سنسکرت کے الفاظ شامل کردیئے تھے۔ دلیل یہ دی گئی تھی کہ عدالتی کارروائی میں شامل اردو اور فارسی کے الفاظ کی وجہ سے بدعنوانی کو فروغ حاصل ہورہا ہے لہٰذا ان کی جگہ اب ہندی اور سنسکرت کے الفاظ استعمال کئے جائیں گے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کسی زبان کا بدعنوانی اور کرپشن سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ بدعنوان اور بے ایمان لوگ اپنے کالے کارناموں کو چھپانے کے لئے ایک ایسی زبان کو مٹانے پر کمربستہ ہیں جس نے ہمیشہ ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ محبت اور خلوص کے نغمے گائے ہیں ۔ اردو زبان میں فارسی اور عربی سے زیادہ ہندی اور سنسکرت کے الفاظ موجود ہیں اور یہ الفاظ اردو زبان کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔ ہریانہ سرکار کا عدالتی کارروائی سے اردو الفاظ کو خارج کرنے کا فیصلہ ریاست سے اردو کو مٹانے کی جانب پہلا قدم تھا۔ ہم آپ کو یاددلادیں کہ ہریانہ کسی زمانے میں غیر منقسم پنجاب کا حصہ تھا جہاں سب سے زیادہ اردو اور فارسی کا چلن تھا۔ سوال یہ ہے کہ عقل کے اندھے کہاں کہاں سے اردو اور فارسی کے الفاظ کو مٹائیں گے۔ یہ الفاظ ہندوستان کی ہر زبان میں موجود ہیں اور ہماری مشترکہ تہذیب میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ انہیں علیحدہ کرنا مشکل ہے۔ ایسے میں نامور مؤرخ عرفان حبیب نے کیا غلط کہا ہے کہ اگر ناموں کو تبدیل ہی کرنا ہے تو سب سے پہلے بی جے پی صدر امت شاہ کو اپنا نام بدلنا چاہئے کیونکہ امت کے آگے لگا ہوا ’شاہ‘ دراصل فارسی کا لفظ ہے ، سنسکرت یا گجراتی کا نہیں۔ عرفان حبیب نے یہ بھی کہا ہے کہ بی جے پی کو گجرات کا نام بھی تبدیل کرنا چاہئے کیونکہ لفظ گجرات کو بھی فارسی کے قالب میں ڈھالاگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ بی جے پی کی جانب سے نام تبدیل کرنے کا ایجنڈا آر ایس ایس کی ہندتو کی پالیسی پر مبنی ہے اور وہ ہندتو کی فلاسفی کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ 
 

شیئر: