Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کا امن سازشیوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا

 
 کراچی (صلاح الدین حیدر ) لگتا ہے کراچی کا امن کچھ سازشیوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں اس کی معیشت کا انجن اور معاشی دارالخلافہ بھی ہے۔ یہاں پر دھماکے کرنے کے 2 ہی مقاصد ہو سکتے ہیں کہ پاکستان کی صحیح سمت میں بڑھتی ہوئی معیشت کو آدھے راستے میں ہی روک دیا جائے یا پھر لوگوں میں خوف وہراس پیدا کرکے ملکی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا جائے۔ کلفٹن کے علاقے میں چینی قونصلیٹ پر خودکش حملہ کے 2 مقاصد ہوسکتے ہیں وہیں ایک مقصد یہ ہے کہ پاک چین راہداری جیسے عمدہ منصوبے کو ضرب پہنچائی جائے۔ جمعہ کا دن اور وقت کا تعین دونوں اہم ہیں۔ چینی قونصلیٹ بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ صبح 9:15 دفاترکھل جاتے ہیں، یہی وجہ تھی کہ 3 حملہ آور ، جدید اسلحہ، گرنیڈ اور دوسرے دھماکہ خیز چیزوں سے لیس ہوکر چینی قونصلیٹ پر حملہ آور ہوئے آفرین ہے قونصلیٹ کی حفاظت پر مامور پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں پر جنہوں نے جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اسے نہ صرف ناکام بنادیا بلکہ تینوں حملہ آوروں کو جہنم رسید کیا۔ ایک پولیس انسپکٹر شاباشی کے قابل ہے جس نے حاضر دماغی سے حملہ آوروں کو قونصلیٹ کے احاطے میں جانے سے پہلے ہی ان میں سے ایک کو مار گرایا اور 2 جو احاطے کے اندر داخل ہوگئے تھے انہیں بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ چینی قونصلیٹ کے کسی اہلکار کو خراش تک نہیں آئی۔
حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کر لی، اس بات کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جاسکتا اور پوری طرح یقین بھی نہیں کیا جاسکتا، وجہ یہ ہے کہ بلوچستان لبریشن آرمی بڑے عرصے سے خاموشی اختیار کئے ہوئے تھی پھر یہ کیا آخرکار کیوں ابھر آئی۔ بات اتنی آسانی سے سمجھ میں نہیں آتی، بلوچستان میں ایوب خان سے لے کر جنرل مشرف تک کے دور میں ملٹری ایکشن ہوتا رہا ہے اور جب اکبر بگٹی جیسی شخصیت کو شہید کردیا گیا تو بلوچ قبائل مری یا بگٹی کا نوجوان بغاوت پر اتر آیا۔ گیس کی پائپ لائن اکھاڑنا شروع کردی، ریل کی پٹریوں کو نوچ پھینکا ان میں سے کچھ تو بیرونی ممالک خاص طور سوئٹزر لینڈ اور انگلستان میں بیٹھ کر بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگاتے رہے۔ہند ان کی پشت پناہی کرتا تھا ۔اس کے بارے میں وثوق سے نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ افغانستان میں ہند نے اپنا اثر و رسوخ بہت بڑھا لیا، اسے امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہے جس سے باغیوں کو مدد ملتی ہے۔ بہت عرصے تک بلوچستان کی آزادی کا نعرہ لگتا رہا لیکن کوئی عملی تحریک نہیں شروع ہو سکی۔ اس کی وجہ ان بلوچ نوجوانوں میں اتحاد کا فقدان ہے۔ برہمداغ بگٹی تو بہت عرصے سے سوئٹزر لینڈ میں بیٹھ کر آزادی کا نعرہ لگاتے رہے لیکن کچھ اطلاعات اب بھی ہیں کہ وہ اب پاکستان واپس آکر قومی دھارے میں شامل ہوگئے ۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلی اختر مینگل بھی قومی اسمبلی کا انتخاب جیت کر قومی دھارے میں شامل ہوگئے ۔ جولائی کے انتخابات نے پاکستانی سیاست کو نیا رخ دے دیا۔ بالاج مری، باجوڑ خان دونوں ہلاک ہوچکے ۔ بگٹی کے سب سے بڑے صاحبزادے طلال بگٹی نے تو پاکستان کی حمایت میں بیان دے دیا پھر بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور دو ایک اور تنظیم محض کاغذ پر ہی ہیں۔ ان کے سربراہ آپس میں ہی دست و گریبان ہیں۔ ان کی آپس کی لڑائیاں خود ہی انہیں لے ڈوبیں گی۔ چند گھنٹوں میں ہی چینی قونصلیٹ اور اورکزئی ایجنسی میں ایک اور خودکش حملے نے متعدد معصوم لوگوں کی جانیں لے لی ۔ یہ سب کچھ بلا کسی منصوبے کے نہیں ہوا۔ منصوبہ سیدھے سیدھے الفاظ میں گوادر کی بندرگاہ کے خلاف جو پاک چین راہداری منصوبے کا اصل مرکز ہے۔ بلوچستان ایک طرف گوادر کو صوبائی حکومت کے تحت دیکھنا چاہتا ہے لیکن کوئی بھی منصوبہ جسے قومی حیثیت حاصل ہو وہ مرکزی حکومت کے تحت ہوتا ہے۔ جیسے کراچی کی بندرگاہ یا پورٹ قاسم۔ دونوں ہی سندھ کے علاقے کراچی میں ہونے کے باوجود مرکز کے تحت ہیں۔ آج کے حملے سے جو سب سے بڑا خلا پیدا ہوگیا وہ ہے بیرونی سفارت خانوں اور ان کے اسٹاف اور افسران کی حفاظت۔ کراچی پر امن شہر بن چکا تھا۔ شہری آزادی سے شہر میں گھومتے پھرتے تھے اب شاید خود تبدیلی نظر آئے اور پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ بیرونی سرمایہ کار کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ حملے کے مختلف پہلو ہیں، ہر پہلو کو خوش اسلوبی سے جانچنا ہوگا۔ 
 

شیئر: