Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’بھیانک جرم ‘‘

گزشتہ ایک ہفتہ، 5دن اور 17گھنٹے سے ہمیں اپنے والد کے ماموں ممانی کی مثالی جوڑی بہت یاد آ رہی ہے جو آج یوں تو قصہ پارینہ ہو چکی مگر ان کے مابین ہونے والی ’’علمی اور معنی خیز‘‘ گفتگویاد آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ لمحہ موجود کے تمام تقاضوں کے عین مطابق تھی۔مثال کے طور پر ماموں اپنی ’’غیر معلنہ شریک حیات ‘‘یعنی دوسری بیوی جس کی موجودگی کے بارے میں پہلی بیوی اور ان کے اہل خاندان کو بالکل بھی علم نہیں تھا، اس کے ہاں سے ہو کر آتے تو بہت خوش دکھائی دیتے۔ ہمیں چونکہ ماموں کی دوسری بیوی کے بارے میں تفصیلی علم تھا اس لئے ہم اپنے والدکے ماموں کی پہلی بیوی کو ’’پرانی ممانی‘‘ اور دوسری اہلیہ یعنی پرانی ممانی کی سوکن کو ’’نئی ممانی‘‘کے نام سے یاد کرتے تھے۔جب ہم دیکھتے کہ ماموںچاکلیٹی شیروانی پہنے، الائچی والا پان چباتے، سر پر ذرا ترچھے انداز میں ٹوپی اور پیروں میں ناگرا پہنے ،خس کے عطر کی لپٹوں کے جلو میں گھر میںداخل ہوتے تو ہم سمجھ جاتے کہ آج ماموں دوسری بیوی کے ہاں سے آئے ہیں، وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوتے، ان کی گفتار، رفتار، اظہار، اقرار و انکار ہر ادا  تغیر وتبدل کا شکار ہو جاتی۔وہ شیروانی اتار کر کھونٹی پر لٹکا دیتے، ناگرا اتار کر ہوائی چپل پہنتے، تیوری پر بل نمودار ہوتے،دونوں ابروئوں کے درمیان عمودی لکیریں عیاں ہو جاتیں، مسکراہٹ کی جگہ پریشانی ا ور تنائو کے آثار نمایاں ہو جاتے۔ پرانی ممانی بے چاری اپنے شوہر کے قدموں کی ’’پھٹ پھٹ ‘‘ سن کرصرف اس امر کا یقین کرنے کے لئے کہ یہ آواز ان کے شوہر کے پیروں کی ہی ہے ،چہرے سے چادر ہٹا کر ایک آنکھ سے دیکھتیںاور پھر چہرہ اسی طرح ڈھانپ لیتیں۔ اب ماموں استفسار کرتے ،پتے میں دردہے، ممانی کی آوازآتی جی ہاں شدید ترین،ماموں پوچھتے کہ معدے میں تکلیف ہے ، ممانی کی آوازآتی جی ہاں شدید ترین،ماموں کہتے ’’بلڈ پریشر‘‘ ہے، ممانی کی آوازآتی جی ہاں شدید ترین،ماموں پوچھتے کہ سانس میںگھٹن ہے ، ممانی کی آوازآتی جی ہاں شدید ترین،ماموں پوچھتے، گردوں میں درد ہے ، ممانی کی آوازآتی جی ہاں شدید ترین،ماموں پوچھتے ، سر میں درد ہے ، ممانی کی آوازآتی جی ہاں شدید ترین،ماموں پوچھتے کان میں درد ہے، ممانی کہتیں نہیں، کان میں کوئی درد نہیں۔یہ سنتے ہی ماموں خوشی کے مارے چلاتے، بغلیں بجاتے اور کہتے کہ ’’جب کان میں درد نہیں ہے تو پھر پریشانی کی کوئی بات نہیںاور پھر شاداں و فرحاں ہو کر اپنی بیٹیوں کو آواز دے کر کہتے کہ چلو بچیو! چائے بنائو، چائے۔‘‘یہ تو پارینہ قصہ تھا، اب ذرا جدید واقعہ بھی پڑھ لیجئے ۔ہوا یوں کہ ہمارے وطن عزیز کے ایک شہر کے ایک حلقے میں ایک نشست کسی ایوانی رکن کے انتقال سے خالی ہوئی تھی، اس مخلوعہ نشست کو ’’پُر‘‘ کرنے کیلئے اس حلقے میں نئے سرے سے انتخابات کرائے جا رہے تھے۔ انہیں عرف عام میں ضمنی انتخاب کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ہم اپنے برادر نسبتی کے گہرے دوست سے وڈیو کال پر ’’منہ در منہ‘‘گفتگو کر رہے تھے۔ اس نے ہمیں باور کرایا کہ پتا ہے ’’بہنوئی انکل‘‘ میں پنڈال میں موجود ہوں ۔’’ناخواندگانِ وطن‘‘ایک پنڈال میں جمع تھے۔ یک جانب بریانی کی دیگیں چڑھی ہوئی تھیں، وہاں سخت پہرہ تھا کیونکہ اس پنڈال میں اکٹھے ہونے والے اکثر ’’پنڈالی‘‘بریانی کیلئے بے حدبے قرار تھے ، اسی دوران اسٹیج سے آواز آئی کہ حضرات استقبال کیجئے ،ہمارے رہنما، پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر سرپٹ دوڑانے کی صلاحیت کے حامل سیاستداں تشریف لا چکے ہیں۔آپ سے التماس ہے کہ کرسیوں پر بیٹھ جائیں۔ انہیں بریانی کرسیوں پر ہی لا کر دی جائے گی۔ گھومنے پھرنے اور ادھر اُدھر کھڑے ہونیوالے لوگوں کو بریانی نہیں ملے گی۔ یہ سنتے ہی لوگ فٹا فٹ کرسیوں پر براجمان ہوگئے۔ اب ’’رہنما‘‘ نے تقریر شروع کی ۔ وہ کہنے لگے کہ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اگر آپ نے مجھے چُن لیا تو میں آپ کی خدمت کرنے کی نئی مثال قائم کروں گا۔اسی دوران مخالف جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک سامع نے استفسار کرنا شروع کیا کہ آپ ماضی میں اسمبلی کے رکن رہے ، آپ نے کرپشن کی،اس نے کہا جی ہاں غلطی ہوگئی تھی، آپ نے منی لانڈرنگ کی ،اس نے کہا جی ہاں غلطی ہوگئی تھی،آپ نے بیرون ملک جائدادیں بنائیں، اس نے کہا جی ہاں غلطی ہوگئی تھی۔ اس سامع نے کہا کہ پھر لوگ آپ کو ووٹ کیوں دیں، اس رہنما نے کہا کہ عوام مجھے کامیاب کرائیں گے کیونکہ میں نے زندگی میں کبھی ’’یوٹرن‘‘ نہیں لیا۔یہ سن کر تمام حاضرین نے رہنما کے حق میں فلک شگاف نعرے لگائے ۔پھر بریانی کی دیگیں کھلیں اور سب نے اسی کو ووٹ دینے کی یقین دہانی کرائی ۔اگلے روز مخالف جماعت کے امیدوار نے میدان سجایا۔اس حلقے کے تمام ’’ناخواندگان‘‘وہاں پہنچ گئے ۔ اس امیدوار نے خطاب کرنا شروع کیا اور کہا کہ لوگو! میںنے کبھی کرپشن نہیں کی ، کوئی منی لانڈرنگ نہیں کی، نہ میں نے بیرون ملک جائدادیں بنائیں۔ آپ لوگ مجھے ووٹ ضرور دیجئے ، میں ایمانداری سے آپ کی خدمت کروں گا۔ یہاں بھی وہی سامع موجود تھا، اس نے میگا فون پر سوال کیا کہ آپ نے کرپشن نہیں کی، منی لانڈرنگ نہیں کی،بیرون ملک جائدادیں نہیں بنائیں مگر یو ٹرن تو لیا ہے ناں؟ اس نے کہا جی ہاں ایک مرتبہ ا یسی غلطی ہوگئی تھی۔اس نے کہا کہ بس پھر آپ کویہاں سے کوئی ووٹ نہیں ملے گا۔یاد رکھیں محبت ، جنگ اور سیاست میں سب کچھ جائز ہے مگر ’’یوٹرن‘‘ انتہائی’’ بھیانک ‘‘غلطی اورناقابل معافی ’’جرم ‘‘ہے ۔ یہ سن کر سارے ’’ناخواندگان‘‘ نے ’’گو گو ‘‘کے نعرے لگانے شروع کر دیئے ۔ یہ تقریر سن کر ہمیں والد کے ماموں بہت ہی یادآئے۔ 
 

شیئر: