Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ہل مت‘‘

***شہزاد اعظم***
دنیا میں’’ماہرین لسانیات‘‘ کے علاوہ ’’ماہرین زبانیات‘‘ بھی پائے جاتے ہیں۔ کل ہی ’’زبانیات‘‘ کے ایک مبینہ ماہر سے ہماری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہر لفظ کی’’ تکوین‘‘ یعنی اس کے بننے یا وجود میں آنے کے پس پردہ ایک کہانی ہوتی ہے ۔ہم نے کہا کہ آپ کا دعویٰ ہمیں ’’سیاسی‘‘انداز کا لگتا ہے، یہ سنتے ہی انہوں نے تلملاکر کہا کہ آپ اسے سیاسی کہہ کر جھوٹ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ یقین جانئے یہ بات بالکل درست ہے۔ ہم نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی ثبوت ہو تو پیش کیجئے ۔کہنے لگے ، ثبوت لا تعداد ہیں، ایک پیش خدمت ہے:
آج کل ’’ہلمٹ‘‘ یا’’ ہیلمٹ ‘‘کہلائے جانے وا لے ’’حفاظتی ٹوپے‘‘ کا بہت چرچا ہے۔ اس کے نام کی تکوین کے حوالے سے جو ’’حقیقت‘‘ہے وہ بطور ثبوت یہاںبیان کی جا رہی ہے۔ ہوا یوں کہ:
قریباً351برس قبل شہر لاہور کے ایک محلے ’’مڈاھر‘‘ میں شوکت نامی شخصیت اپنی دو بیویوں اور 11بچوں کے ساتھ مقیم تھی۔ پیار میں لوگ انہیں ’’شوکی ‘‘ کہا کرتے تھے۔ان کا3 منزلہ گھر تھا۔پہلی بیوی پہلی منزل پر، دوسری بیوی دوسری منزل پر مقیم تھی ۔ چھت دونوں بیگمات کے مشترکہ استعمال میں تھی۔ ایک روزدوسری بیوی کے تیسرے بچے نے ہیرے کی انگوٹھی پرنالے میں پھینک دی۔ شوکی کی پہلی بیوی نے ، دوسری بیوی کے تیسرے بچے کی یہ حرکت دیکھ لی۔ اس نے چلاتے ہوئے سوکن سے کہا کہ دیکھ، تیرے سنپولئے نے اتنی قیمتی  انگوٹھی نالی میں پھینک دی۔ وہ پریشان ہوئی تو اس نے شوکی سے کہا۔
 انہوں نے انگوٹھی واپس لانے کے لئے منصوبہ تشکیل دیا۔بانس کی 3سیڑھیوں کو رسیوں سے باندھا۔اسے دیوار کے ساتھ لگا یا تاکہ انگوٹھی نکالنے کے لئے پرنالے تک رسائی ممکن ہو سکے۔ سیڑھی ہل رہی تھی۔ انہوں نے پہلی بیوی کے دوسرے بیٹے’’روکی‘‘ کو بلا کر کہا کہ یہ سیڑھی پکڑ کر کھڑے ہوجائو، میں اوپر جا رہا ہوں۔ بیٹاجو گنا کھا رہا تھا،سیڑھی پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ گنا چھیلنے کے لئے ایک ہاتھ ہٹاتا تو سیڑھی ہلنے لگتی۔ شوکی وہیں سے چلا کر بیٹے سے کہتا ، ابے روکی، ’’ہل مت‘‘نہیں تو حادثہ ہوجائے گا۔ سیڑھی گر پڑے گی اور تیرے والد صاحب دھڑام سے نیچے گر کر مر جائیں گے۔ اس لئے ’’ہل مت‘‘، نہیں تو حادثہ ہوجائے گا،حادثے سے بچ‘‘۔ 
ماہر زبانیات کے مطابق شوکی کی یہ بات پہلے تو روکی کے ذہن نشین ہوئی، پھر روکی کے بیٹے جوکی کے ذہن میں پیوست ہوئی پھر جوکی کے صاحبزادے لوکی کے دماغ میں سمائی ۔
 یوں یہ سلسلہ کہ ’’ہل مت ، نہیں تو حادثہ ہوجائے گا کئی برس تک سینہ بہ سینہ ، نسل در نسل چلتا رہا۔ اسی دوران برصغیر میںانگریز راج قائم ہو گیا۔ اس نے اپنے زیر تسلط خطے کے بارے میں جاننے کے لئے دانشوروں کے اقوال و اعمال سے آگہی حاصل کرنے کی کوشش کی ۔اسی دوران انگریز کی نظر سے یہ جملہ بھی گزرا جو اس وقت زباں زدِ عام تھا ۔ انگریز نے برطانوی لہجے میں اردو کا یہ جملہ پڑھا اور ساتھ ہی کوما لگانا بھی بھول گیا۔ اس نے یہ جملہ یوں ادا کیا:
’’ہل مٹ‘‘ نہیں تو حادثہ ہوجائے گا
 اب ہوا یوں کہ چونکہ یہ قول ’’انگریزکی زبان‘‘ سے ادا ہو رہا تھاچنانچہ اہالیان برصغیر میں انتہائی مقبول ہو گیا۔ اب ہر کوئی کہنے لگا کہ ’’ہلمٹ نہیں تو حادثہ ہوجائے گا۔
 انگریز چونکہ’’ برصغیریوں‘‘ کی دانش کا تو ہمیشہ سے قائل تھاچنانچہ اس نے ’’ہل مٹ‘‘ پر تحقیق شروع کی ۔ اس نے انگریزی لغت میں ’’ہلمٹ‘‘ کے معانی دیکھے تووہ حیرا ن رہ گیا، اسے پتا چلا کہ یہ تو حفاظتی ٹوپے کو کہا جاتا ہے چنانچہ اس نے ہلمٹ کا استعمال عام کرنے کی کوششیں کیں۔ سائیکل، موٹر سائیکل اوراسکوٹرچلاتے وقت ’’ہلمٹ‘‘ کا استعمال دانشمندی قرار دیا۔ کان کنی کرنے وا لے مزدوروں کے لئے بھی ہلمٹ پہننا مفید بتایا۔
انگریز نے’’ہلمٹی تحقیق‘‘ کے دوران یہ اندازہ بھی لگایا کہ اگر کسی انسان کے ساتھ کوئی ایسا حادثہ پیش آجائے جس میں اس کی ٹانگیں ٹوٹ جائیں ، تو کوئی بات نہیں، انسان بات چیت کرنے کے قابل رہتا ہے ، رہی ٹوٹی ہڈیاں توجڑ جائیں گی، بازو ٹوٹ جائیں تو کوئی بات نہیں،انسان بات چیت کے قابل رہتا ہے ، رہی ٹوٹی ہڈیاںتو جڑ جائیں گی،لیکن اگرکھوپڑی کے ٹکڑے ہوجائیں توانسان بات چیت کے قابل بھی نہیں رہتا، ہڈیاں جڑنا مشکل ہو جاتی ہیں۔ موت کے سائے منڈلانے لگتے ہیں اس لئے انگریز نے زور دے کر کہا کہ استعمال کرو’’ ہلمٹ ، نہیں تو حادثہ ہوجائے گا۔‘‘
یقین جانئے ماہر زبانیات کے اس قابل یقین دعوے کی تصدیق یا تردید ہمارے بس کا روگ نہیں تاہم انہوں نے اس کے بعد جو کچھ فرمایا، اس نے ہمارے14طبق روشن کر دیئے۔
 انہوں نے فرمایا، آپ نے فرنگی زبان کے’’ ہلمٹ‘‘ کے بارے میں تو سن لیا، اب ذرا اس لفظ کے اصل کی جانب آئیے اور میری بات کان کھول کر سن لیجئے۔ جس طرح ’’ہلمٹ ‘‘ کا استعمال حادثے کے باوجود ہوش و حواس کے بقا کی ضمانت ہے اسی طرح سیاست میں اپنے موقف پر ، اپنے مقام پر قائم رہنا انتہائی اہم ہے ۔
 اس حوالے سے میں ذمہ داران پاکستان اور اپنے وطن کے ایک ایک رہنما سے کہنا چاہتا ہوں کہ سیاسی و اقتصادی محاذوں پر اپنے موقف پرڈٹے رہیں تاکہ کسی بھی قسم کے ممکنہ خسارے یا ’’حادثے‘‘ سے محفوظ رہیں، آمین۔ ان کے لئے مختصر اور جامع پیغام  یہی ہے کہ’’ہل مت۔‘‘ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں