Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ڈراؤنا نہیں،سہانا‘‘

***شہزاد اعظم ***
خواب انتہائی قیمتی ہوتے ہیں۔ ان کی متعدد اقسام ہوتی ہیںجن میں دو اقسام ’’ڈرائونا خواب اور حَسین خواب‘‘بے انتہاء اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انسان ’’ڈرائونے خواب سے دور بھاگتا ہے اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے زندگی میں اس قسم کاخواب نظر ہی نہ آئے اور اگر آجائے تو جلد از جلد ختم ہو جائے یا اپنی موت آپ مر جائے جبکہ حَسین خواب کا جہاں تک تعلق ہے تو اس کے حوالے سے انسان چاہتا ہے کہ یہ اتنا طویل ہو جائے کہ کبھی ختم ہی نہ ہو،یہی نہیں بلکہ زندگی میں یہ خواب زمینی حقیقت کے روپ میں سامنے آجائے ۔ان دونوں خوابوں کے حوالے سے کچھ تفصیل و تمثیل بھی از حد ضروری ہے اور اس امر کا ہمیں شدت سے احساس بھی ہے۔آئیے، پہلے ہم حَسین خواب کے بارے میں اپنا خیال اور ایک مثال بیان کرتے ہیں۔’’ حَسین خواب‘‘عموماً انسان کوعالم تشفی میں لے جاتاہے جہاں کوئی خواہش تشنہ نہیں رہتی بلکہ ہر خواہش ذہن و زباں پہ آنے سے قبل ہی پوری ہو جاتی ہے۔ اس قسم کے خوابوں کو حَسین اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں حُسن اور حُسین کا عمل دخل بہر حال ہوتا ہے ۔حُسن بھی ایسا کہ جو انسان کی اپنی مرضی کے عین مطابق چاہتا ہے مثلاً شادی وادی کی تیاری کرنے والے کسی 70سالہ ’’دولہا‘‘کو اس کی خواہش کے مطابق18سا ل کی دلہن اسی خواب میں میسر آ سکتی ہے۔دوسری قسم ڈرائونے خواب کی ہے ۔یہ وہ خواب ہیںجو انسان کو ’’عالمِ عدم تشفی ‘‘ کے حوالے کر دیتے ہیں۔ان کا ناظر خواب سے فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ان خوابوں میں ایسی باتیں، واقعات یا حادثات دکھائی دیتے ہیں جو انسان کے وجود کو دہلا کر رکھ دیتے ہیں مثال کے طور پر اگر کوئی شخص یہ دیکھے کہ پولیس کی اکثریت خوش اخلاقی سے پیش آنے لگی اور اس نے رشوت دینے والے کو یہ کہہ کر روک دیا کہ رشوت دینے والا اور لینے والا ، دونوں جہنمی ہیںیا خواب میں انسان کراچی شہر کے کسی چپے سے کچرا اٹھتا دیکھ لے تو وہ نہیں نہیں کہتا ہوا ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے گا، یہ بھی ڈرائوناخواب ہو گا۔اسی طرح اگر کسی انسان کو اشیائے خور و نوش کے نرخوں میں پائی دو پائی، پیسے دو پیسے ، آنے دو آنے کی کمی کا سامنا کرنا پڑ جائے تو بھی ا نسان خوف و حیرت سے بے ہوش ہو جائے گا۔یہ تمام ’’ڈرائونے خواب‘‘ کہلاتے ہیں اور ان کے ناظر یہ تمنا کرتے ہیں کہ کاش یہ حقیقت خواب ہوتی اوریہ خواب ہی ہماری زندگی ہوتا۔
کچھ دنوں قبل ہم نے جدہ سے لاہور سفر اختیار کرنے کا قصد کیا ۔ اپنی اور اپنوں سے ملاقات کی خوشی بے انتہاء تھی۔ اسی خوشی سے مغلوب کیفیت میں ہماری آنکھ لگ گئی تواچانک ’’حقیقت ‘‘، خواب بن کر ہمیں ڈرانے لگی اور ہم انجام کار ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ہوا یوں کہ جیسے ہی ہماری آنکھ لگی ، ہم نے خواب میں دیکھا جیسے ہم ہمیشہ سے شہر کے مختلف تفریحی وغیر تفریحی مقامات نیز اعزہ کے ہاں آنے جانے کے لئے ایک موٹر سائیکل پر سفر کرتے آئے ہیں۔ موٹر سائیکل پر 8رکنی خاندان کی سواری یوں ممکن بنائی جاتی کہ ہماری موٹر سائیکل کی پٹرول ٹنکی پر 2بچے ، ہمارے پیچھے دو بچے، ان کے پیچھے اہلیہ ، ان کی گود میں ایک بچہ اور ان کے پیچھے کریئر پر ایک بچہ ۔یوں ہم شہر کے کونے کونے کی سیر کرنے کے قابل تھے مگر ہوا یوں کہ ہم نے خبر نامہ سنا نہیں اور گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ابھی گھر سے نکل کر شاہراہ پر نمودار بھی نہیں ہوئے تھے کہ پولیس نے ہمیں روک لیا۔ ہم حیران کہ اہلیہ سمیت ہونے کے باوجود ہماری موٹرسائیکل کو روک لیاگیا۔اسی دوران پولیس کا ایک ذمہ دار ، غیر ذمہ دارانہ انداز میں آگے بڑھا اور گویا ہوا کہ ’’بزرگو!ہیلمُٹ کیوں نئیں پہنا۔ ہم نے کہا کہ آپ کو ہمارے سر پر ہیلمٹ نظر نہیں آرہا؟اس نے کہا کہ موٹر سائیکل پر 8افراد مسلط ہیں،یہ مسماۃ سمیت 7افراد نے ہیلمُٹ نہیں پہنا ، آپ سب کا چالان ہوگا۔ہم نے کہا کہ آج تک ہم اپنا پیٹ کاٹ کر، صرف اور صرف اپنا چالان بھرتے آئے ہیں، اب کہا جا رہا ہے کہ سب کا چالان ہوگا۔ یہ سن کر ہم کوکیں مار کر رونے لگے۔ وہیں ہم نے دائیں بائیں دیکھا تو ہر طرف ہیلمٹ کی دکانیں دکھائی دیں اور ہر دکان پر ہیلمٹ کے خریدار ٹوٹے پڑ رہے ہیں۔اسی دوران سانس گھٹنے کا احساس ہوا تو ہم ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے۔ ہم نے دیکھا کہ ہماری چارپائی کے ارد گرد خاندان کے تقریباً سبھی افراد جمع ہیں جو اپنے اپنے انداز میں استفسار کر رہے تھے کہ ’’پاپا!کیاہواتھا، آپ کوکیں مار کر ر و رہے تھے؟ ہم نے کہا کہ ڈرائونا خواب دیکھا تھا۔
کل ہم نے ایک اورڈرائونا خواب دیکھاجیسے حکومت نے’’قتلِ رشوت و بدعنوانی‘‘مہم کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ پہلے مرحلے میں 10روپے سے لے کر 10لاکھ روپے تک کی رشوت غبن یا بدعنوانی کرنے والوں کو رقوم بینکوں میں جمع کرانے کا موقع فراہم کیاگیا ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ وہ 10روپے سے 1000بلین ڈالر تک کی لوٹی گئی رقم مرحلہ وارواپس نکلوانے کا عزم کر چکی ہے۔ہم نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو ہر طرف بینک ہی بینک تھے جہاں رقوم حکومت کو واپس کرنے والوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگے ہوئے تھے۔ ان میں ہمارے بڑے، ہمارے چھوٹے، ہمارے صاحبان، اکثر سیاستدان، بے اختیار اوربااختیار، سب کے سب ہی بینک کی کھڑکیوں پر رقوم جمع کرانے کی جد و جہد کر رہے تھے اور وہ چلا چلا کر کہہ رہے تھے کہ پلیز! رحم کیجئے، ہم پر رحم کیجئے ،یہ رقم جمع کر لیں، ہم ابھی زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ہم نے یہ منظر دیکھ کر قہقہے لگانا شروع کر دیئے ۔آنکھ کھلی تو دیکھا کہ اہل خاندان ہمارے گرد جمع ہیں۔ انہوں نے پوچھا توہم نے  انہیں اپنا خواب سنا دیا، وہ کہنے لگے’’ یہ ڈرائوناتو نہیں،سہاناخواب‘‘ ہے ۔کاش یہ خواب ہی حقیقت بن جائے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں