Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مشرقی پاکستان کے بحران کا حل صرف مذاکرات میں تھا

ریاض (جاوید اقبال )ریاض میں مقیم معروف پاکستانی انجینیئر شفیق میتلا نے کہا کہ اگر جنرل یحییٰ خان ، ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمان دسمبر 1970 ءکے انتخابات کے بعد باہم بیٹھ کر انتقال اقتدار کیلئے طریقہ کار وضع کرلیتے تو پاکستان کا وجود بحیثیت ایک ملک قائم رہتا اور بنگلہ دیش کا فتنہ سر ہی نہ اٹھاتا۔ انجینیئر شفیق میتلا مارچ 1971ءمیں مشرقی پاکستان کے بحران کے دوران ڈھاکا یونیورسٹی میں انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کررہے تھے اور اس المناک واقعات کے عینی شاہد ہیں جو مارچ 1971ءکے اواخر میں مارشل لاءکے نفاذ سے پہلے وقوع پذیر ہوئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ فروری کے ابتدائی ایام میں مغربی پاکستان کے طلباءکا ایک وفد ایئر مارشل نور خان سے ملا اور انہیں روز افزوں بدامنی کے بارے میں اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔ نور خان نے انہیں تینوں رہنماﺅںسے ملاقات کا مشورہ دیا۔ شفیق میتلا نے یونیورسٹی میں ہی زیر تعلیم شیخ مجیب الرحمان کے بیٹے شیخ کمال کی مدد سے 26فروری کو اپنے ساتھی طلباءکے ہمراہ شیخ مجیب الرحمان سے ملاقات کیلئے ان کے گھر دھان منڈی پہنچے۔ طلباءنے صورتحال پر اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔شیخ مجیب نے کہا کہ پاکستان کو بنگالی نہیں بلکہ مغربی پاکستان والے توڑنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے طلباءکو جنرل یحییٰ اور ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کرنے کی تاکید کی۔ شفیق میتلا اپنے ساتھیوں کے ہمراہ واپس نور خان کے پاس آئے اور انہیں ملاقا ت کی تفصیل بتائی پھر نور خان نے طلباءکی ملاقات مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ٹکا خان سے کرائی جنہوں نے سخت الفاظ میں مذاکرات کے بجائے طاقت کے استعمال پر زور دیا۔ شفیق میتلا کے مطابق نور خان بھی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش میں تھے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو ڈھاکا گئے تو ہوائی اڈے سے ہی شفیق میتلا کو ان کے ہمرا ہ کردیا گیا جو گاڑی میں ہی انہیں صورتحال کے بارے میں تفصیل سے آگاہ کرتے رہے۔ بھٹو کو بتایاگیا کہ شیخ مجیب اقتدار کا حقدار صرف اکثریتی پارٹی عوامی لیگ کو سمجھتے ہیں۔ انجینیئر شفیق میتلا کے مطابق بھٹو، مجیب مذاکرات ناکام ہوئے تو عوامی لیگ کے رہنما کی گرفتاری عمل میں آئی اور پھر مارشل لا کے قدم کوئی نہ روک سکا۔ انہوں نے کہا کہ ہند نے صورتحال کی خرابی سے فائدہ اٹھایا اور پاکستان کو دولخت کردیا۔ شفیق میتلا اب بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اگر تینوں رہنما اپنی ضد ترک کردیتے تو ڈھاکا اور دوسرے شہروںکی گلیاں خون میں نہ ڈوبتیں۔

شیئر: