Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساحل کو چھو کر: غم کس چڑیا کا نام ہے

 اب پتہ چل رہاتھاکہ زندگی کس قدر آزمائشوں سے پرہے۔!!!طوفان اور بھنور سے بچا کر رکھنے وا لی  شفیق ہستیاں جدا ہو گئی تھیں
ناہیدطاہر ۔  ریاض 
ایک بزر گ زخمی حالت میں ہیں۔۔۔انھوں نے اس نمبر پر اطلاع دینے کو کہا ہے۔
ایک مرد  اور خاتون بہت سیریس ہیں۔۔۔۔۔!!!
نہیں۔۔۔۔۔! اس کے منہ سے درد ناک چیخ  نکلی۔اس کا جسم  لرز نے لگا۔درد کا گہرا سمندر تھا جس میں وہ غوطہ زن تھی۔ 
 اس کا دماغ  جیسے ماؤف ہوگیا اورقوت سلب ہوئی۔ وہ چکرا کر فرش پر گرگئی۔۔۔۔۔کئی ساعتیں گزرگئیں  ، عالم بیداری  پر خالی ذہن لیے چھت کو تکتی رہی دوسرے ہی پل  اس کا دماغ گھومتا  ہوا محسوس ہوا،  اس پرشدت غم کی کیفیت طاری  تھی وہ  اٹھی اور ابو کے نمبر پر فون کیا لیکن ناٹ ریچ  ایبل بتارہا تھا۔۔۔پھر دیوانوں کی مانند دادو تو کبھی امی تو کبھی ابو کے فون پر ٹرائی کی لیکن افسوس سبھی  نیٹ  ورک سے محروم ملے آخر تھک ہار کررضا سے رابطہ  کیا۔۔لیکن فون مسلسل انگیج  آرہا تھا  چند  لمحوں کی کوششوں کے بعد  رضا  نے فون  رسیو کیا۔
رضا میں کب سے انتظار کررہی ہوں۔
 میں امریکہ بات کررہا تھا۔دوسری جانب سے اس نے  کافی اطمینان سے جواب دیا۔
آپ فوراً گھر آجائیں ۔
وہ اپنی سسکیوں   پربمشکل قابو پاتی ہوئی بولی۔ وہ شدید جھنجھلاہٹ کے درمیان گویا ہوا
احمق ہو ؟  بیس منٹ میں پلین ٹیک  آف ہونے والا ہے۔۔۔۔۔۔!۔
 ایسی کونسی مصیبت آن پڑی ؟
 جس کا آپ کو اندازہ بھی نہیں۔!!!ثانیہ نے  کپکپا کر کہا۔
خیریت۔۔۔؟وہ سٹپٹا کر پوچھا۔؟
 ابو  کی  کار کا  حادثہ ہواہے!!!
نہیں۔۔۔۔!!!انجانے وسوسوں تلے وہ کانپنے لگا۔
کب۔۔؟کیسے؟سب ٹھیک تو ہے نا۔۔۔۔۔؟
نہیں۔۔۔۔۔۔!!!مجھے کچھ نہیں پتااب کی ثانیہ  اپنی ہچکیاں  روک ناسکی۔
میں ابھی آرہا ہوں۔۔۔۔رضا جنونی انداز میں فون بند کرتا ہوادیوانگی کے عالم میں اٹھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 گھر پہنچا یہاں ماتم کا ماحول چھایا ہوا تھا۔۔۔۔۔ثانیہ کے والدین اور ناز اپنے شوہر کے ساتھ موجود تھی۔۔رضا کو اپنے پیروں تلے ز مین  کھسکتی محسوس ہوئی اور جسم  سے ساری توانائی فوت ہونے لگی۔۔۔۔۔۔!
 وسیم احمدفراز سے ہاتھ ملاتے ہوئے ماتھے کا پسینہ خشک کرتے ہوئے  پوچھا۔
سب ٹھیک تو ہے ناں۔؟
وسیم  احمدفراز نے دھیرے سے داماد کا ہاتھ تھاما اور صوفے پر اپنے ساتھ بیٹھا لیا۔ثانیہ نے  شدید نفرت سے اپنا رخ پھیر رکھا تھا۔گھر کے سارے خادم  ہال میں اکٹھا  تھے  ان کے چہروں پر ہوا ئیاں اڑرہی تھیں اورغم کی پرچھائیاں چھائی ہوئی  تھیں۔ہر ایک کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریزتھیں۔
رضا  کے مضبو  جسم پر ایک کپکپی سی طاری ہونے لگی۔دل ودماغ پر طوفانی سنسناہٹ دوڑرہی تھی۔غم زخم بن کر وجود پر چھاگئے ،وہ اپنے رب سے پناہ مانگنے لگا۔
اس نے ثانیہ کی طرف نگاہ اٹھائی وہ  بے اختیار روئے جارہی تھی۔اس کا وجود کسی قضاء  شدہ تنکوں کی مانند بکھرا ہوا نظر آیا۔آنکھیں سرخ انگارہ بن گئی تھیں۔۔۔۔۔بال الجھے ہوئے۔۔۔۔۔خوبصورت سراپے کی ویرانی دل دہلا رہی تھی۔
آپ کے والدین حادثہ کا شکار ہوگئے۔وسیم احمد تمہید باندھنے کی کوشش کرنے لگے۔
شوکت صاحب اور آپ کی امی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔۔۔۔ہمیں چھوڑ گئے۔۔۔!!!
نہیں۔۔۔یہ نہیں ہوسکتا۔۔۔انکل آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔۔۔!!!رضا پوری جان سے کانپ اٹھا پھروہ اٹھا اور ثانیہ کے قریب آیا ، اسے وحشی انداز میں جھنجھوڑتا ہوا ہسڑیائی انداز میں چلایا۔ تمھارے ابو یہ کیا کہہ  رہے ہیں۔۔۔!  امی ابو کہاں ہیں۔؟ 
جواب میں ثانیہ اپنا چہرہ دوزانوسے اٹھایا  اور بے پناہ کرب سے روتی ہوئی کہنے لگی
ابو، امی  ہمیشہ کے لئے  چلے گئے۔۔۔۔۔آپ کی وجہ سے وہ گھر سے نکلے تھے۔
آپ۔۔!دنیا کے اس رنگین میلے میں  تنہائی چاہتے  تھے نا ۔۔۔۔!!!اب خوش رہنا۔۔۔۔۔!اب آزاد ہو۔۔مکمل آزاد!!!
ایسا نہیں ہوسکتا۔۔۔بکواس کرتی ہوتم۔۔۔میں تمھارا  گلا  گھونٹ دوں گا۔رضا جنونی انداز میں آگے بڑھا اور ثانیہ کی گردن دبو چی ۔۔۔اس کی آنکھیں سرخ انگاروں کی مانند سلگتی محسوس ہورہی تھیں۔منہ سے جھاگ نکل رہاتھااور بدن پر کپکپاہٹ طاری تھی۔وسیم احمد  آگے بڑھے اور رضا کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگے
رضااحمد اللہ تعالی کی مرضی کے آگے ہم انسان بے بس  ہیں۔۔۔ہرحال میں صبر کرنا بندے کا فرض ہیخدا 
 
کے لئے خود پر قابو پانے کی کوشش کیجئے۔رضا کا دماغ پھٹ رہا تھا۔
۔ناز رضا کے بکھرے وجود کو دیکھتی ہوئی دکھ سے رونے لگی اور بولی۔رضا بھائی آپ کو حوصلہ رکھنا ہوگا۔۔۔۔اگرآپ ہی ٹوٹ جائیں گے تو پھر دادو اور ثانیہ کو کون سنبھالے گا۔
ناز۔۔۔!امی اس طرح روٹھ کر مجھ سے دور نہیں جاسکتیں۔۔۔۔۔! ابو  مجھے تنہا نہیں چھوڑسکتے۔۔۔۔۔! وہ اپنے بال نوچتا ہوا لہراکر صوفے پر گرا۔
 یہ سب کیا ہوگیا۔۔۔؟کیسے ہوا؟ وہ بچوں کی مانند بلکتا ہوا ثانیہ کے بکھرے سراپے پر نظر دوڑائی ثانیہ کی آنکھوں میں اپنے تئیں بے پناہ نفرت چھائی تھی جسے  محسوس کرکے وہ  روح کی گہرائیوں سمیت کانپ اٹھا۔۔۔۔۔۔وہ اپنا رخ پھیر کردور جا کھڑی ہوئی۔جیسے رضا ایک ناپاک شئے بن گیا ہو۔۔۔اس قدر  نفرت۔!!!
,رضا نے  سر تھام لیا۔کیونکہ وجود کی ساری قوت فنا ہوتی محسوس ہورہی تھی۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی جان لیوا ساعتیں گزر جانے کے بعد شوکت صاحب کے موبائیل سے کال آئی۔
ہیلو۔۔۔۔رضا دیوانگی کے عالم میں فون پر جھپٹا۔
شوکت صاحب کے بیٹے سے بات کرنی ہے۔وہی اجنبی آواز سنائی دی۔
بولیئے میں ان کا بدنصیب بیٹا  ہوں۔
ہائی وے پر سگنل نہیں  مل رہا تھا۔ ڈیڈ باڈی ہسپتال منتقل کروا دی گئی۔
یہ ایک سرکاری ہسپتال ہے۔
بزرگ کی حالت بھی ٹھیک نہیں  انہیں intensive care میں رکھا گیا ہے۔ 
 
آپ ایڈرس بولئیے۔۔۔۔رضا بچوں کی مانند روتا ہوا پوچھا۔
میں اسپتال کا لوکیشن بھیجتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پورے تین گھنٹوں کے بعد وہ لوگ ہسپتال پہنچے,راستہ بھر ثانیہ روتی رہی تھی اور رضا اس زنگی  شب  میں خود کو چھپانے کی کوشش کرتا ہوا دوڑتی سڑک کو پاگلوں کی مانند تک رہا تھا۔۔۔۔زبان گنگ ہوگئی تھی اور آنکھیں غیر متحرک۔۔۔!صدمے نے دماغ کو ماؤف کردیا تھا۔۔۔۔ثانیہ کی کربناک سسکیاں رات کی سیاہی میں وجود پر چھائے خوف کو دوبالا کیے جارہی تھیں۔۔۔لیکن اسے خاموشی کی تلقین کرنا اور تسلی کے دو الفاظ بھی کہنا رضا کے بس میں نہ تھا۔۔سیٹ کی پشت پر سر ٹکا کر اس نے گہری آہ بھری۔ذات کے سب  موسم بدل گئے تھے صرف درد کا موسم دائمی لگ رہا تھا۔
وسیم احمد بھی ساتھ تھے۔اس سفر کی خوفناکی پر ہمت وحوصلہ بن کر وسیم احمد کا ساتھ پرحوصلہ تھا۔ناز کا شوہر بھی بہت خلوص سے اس کے غم میں شریک تھا۔پتا نہیں وہ خود ان مخلص لوگوں سے کیسے دوری اختیار کر گیا تھا۔
وہ  اپنی امی اور ابو کی محبتیں سمیٹنے والا ایک لاابالی بچہ تھا جوصرف سکھ کے کھلونوں سے کھیل کر جوان ہوا تھا۔۔۔۔۔۔زندگی اس موڑ پر لے آئے گی کبھی سوچا نہیں تھا۔ ثانیہ ڈوبتے کو تنکے  کا سہارالگ رہی تھی جس کے بغیر اس کا وجود بکھر کر رہ جاتا۔اداسی اور غم کی لہریں دل کو کاٹ رہی تھیں اس نے اپنی آنکھیں سختی سے بھینچ لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دادو کو حیدرآباد،ہسپتال  شفٹ کیا گیا۔۔۔۔۔ والدین کی تدفین کردی گئی
غم کس چڑیاکا نام  ہے۔  رضا کو احساس نہیں تھا ۔صحیح معنوں میں اب پتہ چل رہاتھاکہ زندگی کس قدر آزمائشوں سے پرہے۔۔۔۔۔۔ !!!طوفان اور بھنور سے بچا کر رکھنے وا لی  شفیق ہستیاں جدا ہو گئی تھیں۔۔۔زیست کی تکلیفیں ۔۔۔غم کس کو کہتے۔۔۔آنسوؤں میں کس قدر نمک کی آمیزش ہوتی ہے یہ ساری چیزوں کا علم اور احساس جینے نہیں دے رہا تھا ۔ موت دور کھڑی اس کی بے بسی پر قہقہے لگاتی محسوس ہورہی تھی  زندگی کو عیش وعشرت کا چشمہ لگا کر جینے والا قدرت کی اس بھیانک چوٹ پر سنبھل نہیں پارہا تھا۔
دادو بچ گئے  لیکن انھیں جسمانی بہت  چوٹیں آئی تھیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
(باقی ان شاء اللہ آئندہ)
 
 

شیئر: