Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آجکل کے مرد سجی سنوری بیوی کو پسند کرتے ہیں؟

عنبرین فیض احمد ۔ کراچی
جب سے یاسمین اپنی دوست اسماءسے مل کر آئی تھی بڑی بے چین تھی۔ کافی دیر سے سوچوں میں گم تھی کہ اسماءصبح تو کہہ رہی تھی کہ واقعی عادل پہلے جیسے نہیں رہے۔ ان میں کافی تبدیلی آگئی ہے۔ پہلے گھر اور بچوں پر کافی توجہ دیتے تھے اب تو خاصے لاپروا سے ہوگئے ہیں۔ شام کو دیر سے گھر آتے۔ بچوں سے بھی سرسری سی بات چیت ہوجاتی ہے۔ پھر اگر کوئی کام کرنے کا کہو تو فوراً تھکاوٹ کا بہانہ کرکے لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ یعنی آفس ہی تو جاتے ہیں ناں۔ اس میں ایسی کونسی بڑی بات ہے۔ دفتر تو دنیا کے سارے مرد جاتے ہیں کوئی ہل تو نہیں چلاتے جو اتنا تھکاوٹ کی شکایت کرتے ہیں۔ مگر پھر دوسری صبح دیکھو تو کیسے گنگناتے ہوئے شیو کیا جاتا ہے جیسے کوئی تھکاوٹ تو تھی ہی نہیں۔ جیسے آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر گھنٹوں بال سنوارے جارہے ہوتے ہیں پھر ان پر اسپرے بھی کیا جاتا ہے۔ پہلے تو یہ ادائیں نہ تھیں۔ کپڑوں اور بالوں کی یہ فکریں نہ تھیں۔ یقینا دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ اور ادھر میں پاگلوں کی طرح ماسیوں کی طرح حلیہ بنائے سارا دن گھر کی فکر میں غرق رہتی ہوں یا پھر بچوں کے ساتھ مغز ماری کرتی رہتی ہوں کبھی خیال ہی نہیں آتا کہ اپنا بھی خیال کرلوں۔ میں بھی کتنی بھولی ہوں میرا جسم بھی بھاری ہوگیا ہے۔ بالوں میں بھی کچھ کچھ سفیدی آچلی ہے اور پھر اپنے کپڑوں کی طرف دیکھتی ہوں تو وہی پرانے زمانے کے فیشن کے کپڑے ابھی تک پہن رہی ہوں اور جو ایک آدھ نیا جوڑا ہے بھی تو اسے سنبھال کر کہیں آنے جانے کیلئے رکھ دیا ہے۔ کہیں آنا جانا ہوتا ہے تو اسے استعمال میں لاتی ہوں مگر کہیں آنا جانا ہی نہیں ہے۔ اس لئے وہ بھی یونہی سالوں الماریوں میںپڑے رہتے ہیں۔ یہ بھی سوچ کر گھر میں ان کپڑوں کو پہننے کا خیال نہ آیا کہ آج کل سلائی ہی اتنی مہنگی ہے کیا چولہے کے آگے کھڑے ہوکر گھی اور تیل کے داغوں کو ان کپڑوں پر لگاتی رہوں۔ سمیٹ سمیٹ کر چیزوں کو رکھتی رہی اور یہی میں نے اپنے گھر میں ماں کو کرتے دیکھا ۔ مگر بقول میری دوست اسماءکے اب وہ زمانہ نہیں رہا اب زمانہ کافی بدل چکا ہے۔ یاسمین اپنی آنکھیں کھولو چاروں طرف اتنی چکاچوند ہے جہاں سادہ سی وضع قطع کے کپڑوں او رململ کے دوپٹے میں لپٹی بیگم پیاز اور لہسن کی خوشبوﺅں میں بسی بیٹھی ملے گی تو کس کا دل گھر میں آنے کو چاہے گا۔ واہ یاسمین تم نے تو بالکل ہی خود کو نظرانداز کر ڈالا۔ مگر اماں بی سے ہم نے ہمیشہ یہی سنا کہ بیٹا گھر کو بنانے کیلئے عورت کو اپنا تن من مارنا پڑتا ہے تب جاکر دنیا میں کچھ حاصل ہوتا ہے۔ یاسمین ابھی بھی تمہارا کچھ نہیں بگڑا ابھی بھی وقت ہے اپنا خیال کرو۔ ہاں ہاں اپنے لئے تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔
یاسمین ایک پختہ عزم کے ساتھ اٹھی اور پھر اس نے اپنی الماریوں سے کپڑے نکالے اچھے خاصے کپڑے تھے مگرشکل یہ تھی کہ انتہائی گرمی میں یہ ریشمی اور نائیلون کے کپڑے پہنے نہیں جاسکتے تھے۔ تمام جوڑوں میں سے چند چھانٹ کر نکالے۔ استری کرکے ہینگر میں ٹانگنے میں اسے 2گھنٹے لگ گئے ۔ اس نے چولہے پر ہانڈی چڑھا رکھی تھی۔ جب کپڑے ٹانگ کر باہر نکلی تو جلنے کی بو نے کچن کے دروازے پر ہی اس کا استقبال کیا۔ یعنی جو سالن اس نے پکانے کیلئے چولہے پر چڑھایا تھا وہ جل چکا تھا۔ وہ سوچ میں پڑ گئی کہ اب کیا پکائں آج تو گھر میں کوئی سبزی اور گوشت بھی نہیں اور پھر بچوں کے اسکول سے آنے کا وقت بھی ہورہا تھا۔ جلدی جلدی اس نے روٹیاں تیار کیں اور بچے جب اسکول سے گھر آئے تو انہیں کھلا پلا کر دوبارہ سے اپنی مہم کی طرف توجہ دینا شروع کردی۔ اس نے گھڑ ی کی طرف دیکھا تو پورے پانچ بج رہے تھے اور اس کے شوہر کے آنے کاو قت بھی ہورہا تھا۔ اس لئے جلدی جلدی تیار ہونے چلی گئی۔ پیازی رنگ کا سلک کا سوٹ لیکر اس نے جائزہ لیا ٹھیک ٹھاک لگ رہا تھا۔اس نے خود سے کہا کہ ان کپڑوں میں اب اتنی بھی گرمی نہیں لگ رہی جتنا وہ سوچ رہی تھی۔خواہ مخواہ جس چیز کو جتنا محسوس کیا جائے وہ زیادہ ہی لگتی ہے۔ چلو آج بالو ں کو بھی دوسرے طریقے سے بناتی ہوں۔ بال بنانے کے بعد بیحد احتیاط سے لپ اسٹک لگا کر آئینے میں اپنا جائزہ لیتی رہی اور خود ہی خود مسکرانے لگی۔ اتنے میں باہر سے بچوں کا شور سنائی دینے لگا ابو آگئے، ابو آگئے۔ اس نے جلدی سے خود کو دیکھا کیونکہ آج وہ روزانہ کی نسبت بہتر لگ رہی تھی۔ وہ نئی دلہنوں کی طرح شرما رہی تھی۔ اسے اس حال میں دیکھ کر عادل نے سوال کیا ارے آج کہیں جانا ہے کیا ؟ نہیں تو پھر مجھے بیحد بھوک لگی ہے پہلے کھانا دے دو وہ جلدی جلدی کھانا گرم کرنے لگی۔ اسے ریشمی کپڑے پہن کر کچن میں کام کرتے ہوئے شدید گرمی لگ رہی تھی۔ اس نے سوچا بھاڑ میں گیا ایسا فیشن روٹی پکاتے ہی کپڑے بدلوں گی کھانا ٹرے میں لیکر وہ کمرے میں آئی تو عادل ٹی وی پر نظریں جمائے ہوئے اس سے پوچھنے لگا کہ کیا پکایا ہے آج؟ اس نے جواب دیا دال۔ مجھے بھوک نہیں بچوں کو دیدو۔ وقت اسی طرح گزرتا گیا وہ ہر وقت سجے سنورے رہنے اور خود کو پرکشش بنائے رکھنے کیلئے اخبار وں اور رسالوں میں سے مضامین اور ٹوٹکے کی چیزیں نکال کر انہیں خود پر آزماتی ایک تو مصیبت یہ تھی کہ دو دن ایک مشورے پر عمل ٹھیک طرح سے کر بھی نہیں پاتی کہ تیسرے دن کوئی اور ترکیب حسین بننے کیلئے آجاتی۔ جس سے اچھی خاصی مصیبت میں پھنس گئی تھی۔ اس لئے اکثر ہانڈی بھی جل جاتی تھی۔ بچوں کا ہوم ورک وہیں پڑا رہ جاتا اور بچے لڑ مڑ کر ادھ موئے ہوجاتے۔ مگر وہ اپنی نوک پلک درست کرنے میں اتنی منہمک ہوتی کہ پتہ بھی نہ چلتا مگر ستم یہ کہ اس کا شوہر کبھی اس سے یہ تک نہ کہتا کہ بیگم آج تم کتنی پیاری لگ رہی ہو یا کم ا ز کم یہی کہ آج اچھی لگ رہی ہو۔ بعض اوقات وہ بہت جھنجھلا جاتی کہ جس کے لئے اتنی محنت کررہی ہوں اسے ہی میری کوئی پروا نہیں تو کیا فائدہ۔ اس دن بھی اس کی دوست اس کے گھر آئی اس کے سامنے وہ چھلک پڑی۔
بھئی تم تو کہتی تھیں کہ آج کل کے مرد سجی سنوری بیوی کو پسند کرتے ہیں جو بن ٹھن کر ان کا استقبال کرے ۔ مگر میرے شوہر پر تو کوئی اثر ہی نہیں ہورہا ہے تم تو پہلے سے خاصی بہتر بلکہ خاصی پیاری لگ رہی ہو یاسمین اپنی تعریف سن کر بجائے خوش ہونے کے اداس ہوگئی ۔ بہن مجھے یہ سب کچھ خود اچھا نہیں لگ رہا اپنے گھر اور بچوں کی بہتری پر پیسے خرچ کرنے کے بجائے میں ان فضول کاموں میں وقت اور پیسہ ضائع کررہی ہوں یعنی میں اپنے میک اپ اور زیورات اور کپڑوں پر ان پیسوں کو لٹا رہی ہوں۔ ہم جیسے درمیانے درجے کے گھروں کا بجٹ بھی اس سے متاثر ہوتا ہے اور اس قسم کی خواہشات سے تو گھر کا بجٹ بالکل ہی درہم برہم ہوجاتا ہے اور یقین مانو تو ایک پرفیوم کی بوتل کی قیمت پر پورے مہینے کے دودھ کا بل قربان ہوجاتا ہے بھئی میں تو باز آئی اس قسم کے جدید فیشن اور اسکے تقاضوںسے اور پھر یاسمین نے اپنی دوست کے جانے کے بعد میک اپ کی چھوٹی بڑی ساری چیزوں کو سمیٹا اور الماری میں رکھ دیا اور اپنے ریشمی سوٹوں کی گٹھڑی بنائی اور الماری میں دوبارہ جاکر رکھ دیا کہ میری بیٹی اب بڑی ہورہی ہے اسے ٹھیک کرکے دیدونگی۔ وہ پہنے گی تو مجھے زیادہ خوشی ہوگی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا شام کو وہ کچن سے کھانا وغیرہ بناکر نکل رہی تھی تو مغرب کی اذان کی آواز اس کے کانوںمیں پڑی جلدی جلدی وضو کرکے اس نے اپنے ململ کے دوپٹے کو اوڑھا اور نماز کیلئے کھڑی ہوگئی۔ دونوں ہاتھ اٹھائے اور وہ بڑے خشوع و خضوع سے دعا مانگ رہی تھی کہ اچانک ہی عادل گھر میں داخل ہوا اور اس نے یاسمین کا یہ روپ اسے بیحد بھلا معلوم ہوا اس نے اپنی ماں سے کہا کہ دیکھیں اماں آج آپکی بہو کتنی پیاری لگ رہی ہے۔ یاسمین دعا مانگنے کے بعد اپنے آنسو پونچھنے لگی اور تخت سے اترنے کیلئے پاﺅں نیچے اتار رہی تھی کہ اس کے شوہر نے اچانک اس کا ہاتھ تھام کر بڑی اپنائیت سے کہا کہ تمہارا یہ روپ سب سے پیارا ہے اور وہ دل ہی دل میں سوچ میں پڑ گئی کہ میں خواہ مخوا ہ اتنے جتن کرتی رہی اور دوسروں کی باتوں میں آکر پاگل پن کرتی رہی اور وہ بھیگی آنکھوں کےساتھ مسکرا تے لب لئے عادل کیلئے کھانا گرم کرنے کچن کی طرف چلی گئی۔
٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: