Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’ہونی اور راستہ‘‘

***شہزاد اعظم ***
 
ہم بچپن سے ہی اپنے اجداد کی عزت و احترام کرنے کے قائل چلے آ رہے ہیں۔ ہمیں کوئی بھی ہستی اس نہج سے ایک سوتر دائیں یا بائیں نہیں کر سکی۔اس میں ہماری ”طرم خانی“ کا کوئی عمل دخل نہیں۔ یہ سب مس شکیلہ کی مہربانیا ں ہیں جنہوں نے ہمیں گریہ سکھایا، تبسم سکھایا، خموشی سکھائی ، تکلم سکھایا، تشدد سکھایا، ترحم سکھایا،غپاڑہ سکھایا، ترنم سکھایا۔ یہاں ”برائے مہربانی ! ہمیں کہہ لینے دیجئے “ کہ ہمارے والدین نے تو ہم جیسے ”دوپایہ جاندار“ کو مس شکیلہ کے حوالے کیا تھا، ا نہوں نے اپنی مہارت، لیاقت، سعادت، نفاست،ارادت ، قیادت، ریاضت و سیاست کا اندھا دھند استعمال کرکے ہمیں حقیقی معنوں میں انسان بنایا۔یوں آج ہم زیر مطالعہ تحریر رقم کرنے کے قابل ہو سکے۔ ہماری زندگی کی رہگزر میں ملنے والی انتہائی قیمتی،گرانقدر اور”بِنا زیر و زبر“ شخصیات میں مس شکیلہ سرفہرست تھیں۔ انہوں نے ہی ہمیں یہ بات سمجھائی تھی کہ چھوٹے ہمیشہ غلط نہیں کہتے اور بڑے کبھی غلط نہیں کہتے۔
ہمیں ایک ”بڑے“ نے یہ بات باور کرائی کہ ”ہونی اپنا راستہ خود بناتی ہے۔“ہم حیران رہ گئے کہ یہ ”ہونی“ کیا بلا ہے چنانچہ ”باوریے“ یعنی یہ بات باور کرانے والے سے ہم نے استفسار کر ڈالا کہ یہ ہونی کیا ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ واقعہ سن لیجئے، معانی خود بخود آپ کی فراست میں پیوست ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجنوں نے زندگی میں متعدد نشیب دیکھے، ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ اسے ایک مرتبہ عجیب و غریب بیماری لاحق ہو گئی۔ وہ حکیم کے پا س گیا۔ اس نے ”نبضی امتحانات“کے بعد بتایا کہ آپ کو لاعلاج مرض لاحق ہو گیا ہے اور آپ چند روز کے اندر اندر مر مرا جائیں گے ۔ یہ سنتے ہی مجنوں کوکیں مار کر روپڑا کہ اب لیلیٰ سے شادی کی تمام امیدیں دم توڑ دیں گی چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ لیلیٰ سے آخری ملاقات کر کے دنیاسے جانے کی تیاری کرلے گا۔ وہ لیلیٰ کے نشیمن تک رسائی کے لئے صحراءعبور کرنے کی ہمت کر کے نکل کھڑا ہوا۔ چلتے چلتے اسے بھوک لگی، اس نے ایک اونٹنی کو وہاں سے گزرتے دیکھاتو اسے دبوچ لیا تاکہ دودھ پی سکے ۔دودھ کے لئے اس نے کوئی برتن وغیرہ تلاش کیا ۔ دیر تک صحراءنوردی کرنے کے بعد اسے پیالہ نما شے ملی۔ مجنو ں نے اس میں اونٹنی کا دودھ لے کر پیا۔ اب سونے کے لئے لیٹنے لگا تو خیال آیا کہ میں لیٹ گیا تو میرے پاﺅں لیلیٰ کے گھر کی طرف ہوں گے اور گھر نجانے کون سی جانب ہے چنانچہ اس نے بہتر سجھا کہ خود کو کھجور کے تنے سے باندھ لے اور یونہی ساری رات گزار دے۔ اس نے ایسا ہی کیا اور پھر سفر جاری رکھا۔بہر حال وہ اپنے مشن سے واپس ہوا اور مرنے کا انتظار کرنے لگا۔ کافی عرصہ گزر گیا مگر اس کی موت واقع نہیں ہوئی تو اس نے حکیم سے شکوہ کیا کہ میں شرمندہ ہوں کیونکہ آپ کی تشخیص و تیقن کے باوجود میں ابھی تک فوت نہیں ہوا۔ حکیم حیران ہوئے، مسند سے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ تیرے مرض کا ایک ہی علاج تھا کہ 2000سال قدیم انسانی کھوپڑی میں اونٹنی کا دودھ پی کر ساری رات کھجور کے تنے سے چمٹ کر سوئے تو یہ تکلیف رفع ہو سکتی ہے۔ بتا تو نے ان میں سے کون سا کام کیا۔ مجنوں نے کہا کہ میں یہ سب کچھ تو قدرتی طور پر پہلے ہی کر چکا ہوں۔یہ سن کر حکیم نے کہا کہ ہمارے بزرگوں نے صحیح کہا ہے کہ”ہونی اپنا راستہ خود بناتی ہے۔“
اسی مبینہ کہاوت کی تصدیق کرنے و الا ایک واقعہ ہماری عمر عزیز میں بھی پیش آیا۔ ہوا یوں کہ ہمارا ایک دوست تھا، اخلاقیات بے حد اعلیٰ، خوش گفتار ، مکین رہائشِ بالا، رشتے میں ہمارے ہمسائے کا سالہ،انہیں کراچی سے لاہور جانا تھا۔ صورتحال ہنگامی تھی مگر کسی ریل میں کوئی نشست نہیں تھی۔ انہوں نے یونہی اپنے دفتر کے ا یک ساتھی سے ذکر کیا، اس دفتری نے کہا کہ میں ریلوے سے دریافت کر کے بتا دیتا ہوں۔دفتری نے ریلوے کسی افسر سے بات کی۔ اس نے کہا کہ کتنی نشستیں درکار ہیں، جواب ملا کہ میں اور میری بیٹی۔ بس دو نشستیں چاہئیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ویسے توریل میں جگہ نہیں مگر میں آپ کی 2نشستوں کے لئے ایک زائدبوگی لگوا دیتا ہوں مگر یہ کام کل ہو گا کیونکہ اسکی اجازت وزیر ریلوے سے لینی پڑے گی۔ اسی ایک روز میں اسی ہمسائے کے سالے کو ہوائی جہاز کی ٹکٹیں مل گئیں۔ انہوںنے فوری طورپر قبول کر لیں اور ریل کی ٹکٹیں واپس کرنے کے لئے کہہ دیا۔ اب یہ ٹکٹیں ماسی خیراں اور للو دودھ والے کے نام کر دی گئیں تاہم اسپیشل بوگی کا انتظام کروانے والے دفتری ساتھی نے پوچھا کیوں جناب، ٹکٹیں مل گئیں؟ اس نے کہا جی جی! بہت شکریہ۔ اس نے مزید کہا کہ میں نے ان دونوں باپ بیٹی کو اپنا خصوصی مہمان قرار دے کر ان کی خاص تکریم کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ انہیں ڈائننگ کار کی جانب سے 4وقت کا کھانا مہمانوں کے احکامات کے مطابق تیار کر کے پیش کیاجائے گا۔ دیگر سہولتیں بھی میسر آئیں گی۔اب ہوا یوں کہ ماسی خیراں اور للو، دونوں ہی ماں بیٹا حیران اور دیگر مسافرین کرام پریشان تھے کہ ان دومسافروں کی اس قدر گرمجوش اور والہانہ مدارات کیوں کی جا رہی ہے۔
ہمیں اشتیاق ہوا، ہم للو اور ماسی خیراںکا احوال دریافت کرنے ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ گاڑی آکر پلیٹ فارم پر رکی۔خیراں اور للو ٹرین سے باہر آئے ، ہم نے پوچھا کیسا رہا،للو نے کہا کہ میں نے شایدزندگی میں کوئی نیک کام کر کیا ہوگا جس کا ایسا پھل مجھے ملا ہے کہ نہ صرف میری ماں بلکہ سب مسافر بھی حیرت کے مارے انگلیاں کاٹ چکے ہیں۔یقین جانئے آج ہمیں اسکول کے دورکی وہ کہاوت یاد آرہی ہے کہ ”ہونی تو ہو کر رہتی ہے۔“
ہمارا یہ کالم قبل از طباعت ہماری پسندیدہ خالہ نے پڑھ لیا۔ انہوں نے عجب بات کہی، وہ کہنے لگیں، ارے بیٹا!تم نے اتنا لمبا چوڑا واقعہ تحریر کر ڈالا، اس سے بڑی اور مثال کیا ہوگی کہ لوگ کہتے تھے، وزارت عظمیٰ کے لئے شیروانی سلوانا عمران کے لئے خواب ہی رہے گا مگر ہوا یوںکہ ”ہونی نے اپنا راستہ خود ہی تلاش کر لیا۔ آج عمران خان شیروانی پہن کر وزارت عظمیٰ کی مسند پر براجمان ہیں اوردیگر شیروانی پوش آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر گرم آنسوﺅں سے بینائی کو غسل دیتے ہوئے شیروانی سے یوں مخاطب ہوتے دکھائی دیتے ہیں:
”کبھی ہم میں، تم میں قرار تھا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو“
 

شیئر:

متعلقہ خبریں