خلیفۂ د وم سیدنا عمرؓ،مرادِ رسول ﷺ
جمعرات 27 دسمبر 2018 3:00
سیدنا عمرِ فاروقؓ تاریخِ اسلام کا وہ روشن کردار ہیں جن کی مثال رہتی دنیا تک پیش نہ کی جاسکے گی، رسولؐ نے فرمایا :جس راستے پر عمر ہوں وہاں سے شیطان راستہ بدل لیتا ہے
نبی اکرم بیت اللہ کے طواف کے دوران مقامِ ابراہیم پر پہنچے تو دیکھاکہ حضرت عمر فاروقؓ سر جھکائے کچھ سوچ رہے ہیں، قائد نے اپنے جان نثارؓؓسے پوچھا:
’’ کیا سوچتے ہو عمر !۔‘‘
جواب دیا:
’’جب میں طوافِ کعبہ کے دوران مقامِ ابراہیم پر پہنچتا ہوں تو مجھے براہیمی سجدوں کی یاد آنے لگتی ہے اور میرا بھی جی چاہتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی پیروی میں سجدہ ریز ہو جاؤں۔ ‘‘
نبی اکرم نے فرمایا :
’’تُو چاہتا ہے عمر تو کیا میرا جی نہیں چاہتا؟میرے تو دادا تھے ابراہیم ،جس طرح میں نے تجھے اپنے رب سے مانگا اسی طرح میرے دادا نے مجھے اپنے رب سے مانگا تھا۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا:
’’ آپ بھی اگر یہی چاہتے ہیں تو پھر یہ قانون بن گیا نا؟‘‘
آپ نے فرمایا :
’’نہیں عمر!قانون فرش پر نہیں عرش پر بنا کرتے ہیں ۔‘‘اور پھر عرش سے جواب آیا:
’’اے پیغمبرؐ! قیامت تک اپنے ماننے والوں کو یہ حکم دے دیجئے کہ جو بھی زائرِ حرم میرے گھر کے طواف کو آئے،مقامِ ابراہیم کو اپنی سجدہ گاہ بنا لے۔ ‘‘
اُس وقت سے سجدے شروع ہیں، آج بھی ہو رہے ہیں اور اُس وقت تک جاری رہیں گے جب تک زائرینِ حرم بیت اللہ کے طواف کو آتے رہیں گے۔
سیّدنا عمرؓ نے جنہیں اللہ کے رسول نے اپنے رب سے مانگا تھا خلیفۂ دوم کے طور پر ایسا طرزِ حکمرانی قائم کیا کہ تاریخ جس کی مثال دینے سے قاصر ہے ۔ایک رات وہ مدینہ کی گلیوں سے گزرتے ہوئے ابھی گھر جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ دور انہیں آگ جلتی نظر آئی۔یہ سوچ کر کہ شاید کوئی قافلہ ہے جس نے شہر کے باہر پڑاؤ ڈالا ہے اس کی خبر گیری کیلئے الاؤ کی جانب چل پڑے۔ قریب جانے پر معلوم ہوا کہ ایک خیمہ ہے اور اس کے اندر سے ایک عورت کے کراہنے کی آواز آرہی ہے۔ قریب ہی خیمے کے باہر ایک شخص ضروریاتِ زندگی کا سامان کرنے کیلئے آگ جلائے ہوئے ہے۔ سیدنا عمرؓ نے سلام کے بعد اس شخص سے پوچھا کہ بھلے مانس تم کون ہو اور یہ خیمے کے اندر سے آنے والی آواز کا کیا ماجرا ہے۔اس نے بتایا کہ میں ایک غریب الدیار شخص ہوں اور امیر المؤمنینؓ کی سخاوت کا چرچا سن کر مدینہ آرہا تھا کہ رات ہوگئی اور میری بیوی جو حمل سے ہے اُسے دردِ زہ شروع ہوگیا۔ آپ ؓنے اس کی بات سن کر پوچھا کیا تمہاری بیوی کے پاس کوئی دوسری عورت موجود ہے؟جواب ملا کوئی نہیں۔آپ ؓ فوراً گھر لوٹے اور اپنی بیوی حضرت امّ کلثوم بنت علی کو ساتھ لے کر واپس اس شخص کے ہاں پہنچے۔ اپنی بیوی سیدہ ام کلثوم کو اس عورت کے پاس اندر خیمے میں بھجوایا اور خود اس شخص کے پاس بیٹھ کر آگ جلانے اور اپنے گھر سے لائے ہوئے سامان سے کھانا پکانے میں مشغول ہو گئے۔ اب وہ شخص سخت غصّے میں امیرالمؤمنینؓ کو برا بھلا کہ رہا تھا کہ رات کو قافلے شہر میں داخل نہیں ہو سکتے جس کی وجہ سے اسے اور اس کی بیوی کو شدید تکلیف کا سامنا کرناپڑا۔اسی اثناء میں خیمے سے بچے کے رونے کی آواز نئے مہمان کی آمد کا اعلان کرتی ہے اور سیّدہ امّ کلثوم ؓخیمے سے آواز دے کر کہتی ہیں :
’’امیرالمؤمنین! اپنے بھائی کو بیٹے کی خوشخبری دیجئے۔‘‘
اب وہ شخص کہ جو تھوڑی دیر پہلے امیر المؤمنین کو سخت سست کہہ رہا تھا اسے جب معلوم ہوا کہ اس کے پاس بیٹھا ہوا شخص کوئی اور نہیں خود خلیفۃالمسلمین ہیں تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے۔ امیر المؤمنین نے مسافر کی پریشانی کو دیکھ کر تسلی دی کہ میں تمہارا خادم ہوں پریشان کیوں ہوتے ہو؟ اطمینان رکھو۔ امیر المؤمنین نے دیگچی اٹھائی اور دروازہ کے قریب لاکر رکھ دی ،اپنی اہلیہ کو آواز دی کہ یہ لے جاؤ اور اپنی بہن کو کھلاؤ۔
سیدنا عمرِ فاروق تاریخِ اسلام بلکہ تاریخِ انسانی کا وہ روشن کردار ہیں جن کی مثال رہتی دنیا تک پیش نہ کی جاسکے گی جن کے بارے میں جناب رسالت مآب نے ارشاد فرمایا :
’’جس راستے پر عمر ہوں وہاں سے شیطان راستہ بدل لیتا ہے۔‘‘ (بخاری)۔
رسول اللہ کے صحابی حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا ایک مجوسی غلام تھاجس کا نام ابو لولو فیروز تھا۔ یہ مجوسی ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے مالک کی شکایت لے کر آیا کہ اس کا مالک مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اس سے روزانہ4 درہم وصول کرتے ہیں آپ اس میں کمی کرا دیجئے۔ امیر المؤمنین نے فرمایا کہ تم بہت سے کام کے ہنرمند ہو تو 4 درہم روز کے تمہارے لئے زیادہ نہیں۔ یہ جواب سن کر وہ غصّے میں آگ بگولہ ہو گیا اور آپکو قتل کرنے کا مکمل ارادہ کر لیا اور اپنے پاس ایک زہر آلود خنجر رکھ لیا۔
26 ذی الحجہ 23ھ بروز بدھ سیدنا عمرؓ نماز فجر کی ادائیگی کیلئے مسجد نبوی شریف میں تشریف لائے۔ جب آپؓ نماز پڑھانے کیلئے کھڑے ہوئے تو اسلام دشمن مجوسی آپؓ پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا سخت وار کیا کہ آپ ؓ بری طرح زخمی ہو گئے اور 3 دن کے بعد 10 سال 6 ماہ اور4 دن مسلمانوں کی خلافت کے امور انجام دیکر یکم محرم الحرام 23ھ کو جامِ شہادت نوش فرمایا اور نبی اکرم اور خلیفۂ اوّل حضرت ابوبکر صدیق کے پہلو میں دفن ہوئے۔
سلامتی ہو عمر ابنِ خطاب رضی اللہ عنہ پر کہ جن کی مثال تاریخ کبھی پیش نہ کر سکے گی۔