’اسے آگاہی مہم کے طور پر دیکھتا ہوں‘، ہیلمٹ کرائے پر دینے کی سروس متعارف
’اسے آگاہی مہم کے طور پر دیکھتا ہوں‘، ہیلمٹ کرائے پر دینے کی سروس متعارف
منگل 16 دسمبر 2025 5:42
ادیب یوسفزئی - اردو نیوز، لاہور
رینٹ اے کار اور رینٹ اے بائیک تو آپ نے بہت سنا ہو گا لیکن اب رینٹ اے ہیلمٹ کی سروس بھی شروع ہو گئی ہے۔
پنجاب کے شہر خانیوال میں ایک بیکری اونر نے اپنی ہی دکان پر ہیلمٹ کرائے پر دینے کی سروس متعارف کرائی ہے جس کا مقصد شہریوں کو چالان سے بچانے کے ساتھ ساتھ ہیلمٹ پہننے سے متعلق آگاہی پھیلانا بھی ہے۔
خانیوال کے رہائشی محمد اسحاق کی بیکری میں مٹھائیوں اور بسکٹوں کے درمیان ایک پوسٹر آویزاں ہے جس پر ’ہیلمٹ 10 روپے فی گھنٹہ دستیاب ہے‘ لکھا گیا ہے۔
محمد اسحاق بتاتے ہیں کہ سبزی لینے کے لیے نکلے گھریلو افراد ہوں یا کسی کام سے جلدی میں نکلے نوجوان، اکثر کے سروں پر ہیلمٹ نظر نہیں آتا۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا ’ٹریفک پولیس ہر چوک پر موجود ہے اور ہیلمٹ نہ پہننے پر چالان اب دو ہزار روپے تک جا پہنچا ہے۔ ایسے میں یہ 10 روپے کا ہیلمٹ کئی لوگوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔‘
محمد اسحاق نے خانیوال شہر میں چک شہانہ روڈ پر قائم اپنی بیکری میں ہیلمٹ کرائے پر دینے کی سروس متعارف کی ہے۔
ان کے مطابق یہ خیال انہیں روزمرہ کے مشاہدے سے آیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں روز دیکھتا تھا کہ لوگ صرف سبزی لینے یا کسی چھوٹے کام کے لیے نکلتے ہیں اور راستے میں پولیس روک لیتی ہے۔ 2000 روپے کا چالان عام آدمی کے لیے بہت بڑی رقم ہے۔ اسی بات نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا۔‘
ان کی بیکری میں داخل ہوں تو شیشے کے شوکیس پر رکھے تین چار ہیلمٹ قطار میں نظر آتے ہیں۔
ہیلمٹ کرائے پر دینے کے طریقہ کار سے متعلق وہ بتاتے ہیں کہ ’اصول سادہ ہے۔ گاہک اپنا شناختی کارڈ جمع کرواتا ہے۔ ہیلمٹ لیتا ہے۔ کام نمٹا کر واپس آتا ہے اور کارڈ لے جاتا ہے۔ کوئی پورا ایک گھنٹہ ہیلمٹ نہیں رکھتا۔ زیادہ تر لوگ 10 سے 20 منٹ میں واپس آ جاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق یہ سروس خاص طور پر ان لوگوں کے لیے مفید ہے جو ہیلمٹ خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے یا کم فاصلے کی وجہ سے ہیلمٹ پہننا ضروری نہیں سمجھتے لیکن چالان کی زد میں آجاتے ہیں۔
مارکیٹ میں آج کل ایک عام ہیلمٹ کی قیمت کم از کم ایک ہزار روپے ہو چکی ہے۔
محمد اسحاق کے مطابق ’لوگ ایک ہزار دینے کی بجائے 10 روپے دے کر اپنا کام کر لیتے ہیں۔ یوں وہ چالان سے بھی بچ جاتے ہیں اور حفاظت بھی ہو جاتی ہے۔‘
مارکیٹ میں آج کل ایک عام ہیلمٹ کی قیمت کم از کم ایک ہزار روپے ہو چکی ہے (فوٹو: ویڈو گریب)
یہ خیال دراصل ان کے گھر میں موجود دو تین اضافی ہیلمٹوں سے شروع ہوا جبکہ آج صورت حال یہ ہے کہ بعض اوقات ایک ساتھ اتنے لوگ آ جاتے ہیں کہ ہیلمٹ کم پڑ جاتے ہیں۔
محمد اسحاق اس بارے میں بتاتے ہیں کہ ’میں نے سوچا کہ یہ ویسے ہی پڑے رہتے ہیں کیوں نہ کسی کے کام آ جائیں۔ اب میں مزید ہیلمٹ خریدنے کا سوچ رہا ہوں تاکہ زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچ سکے‘
بظاہر یہ سروس معمولی معلوم ہوتی ہے تاہم محمد اسحاق اسے آگاہی مہم کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
’10 روپے فی گھنٹے سے شاید میں دن میں ایک ہزار بھی نہ کما سکوں لیکن اس معمولی کاوش کی بدولت ہیلمٹ پہننے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ میں اس کو ایک آگاہی مہم کے طور پر دیکھتا ہوں‘