Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نظامِ زر ہے خطرے میں

***سجاد وریاہ***
جناب نواز شریف ایک بار پھر جیل میں پہنچ چکے ہیں ،ان کی قانونی ٹیم ایک بار پھر عدالت کے سامنے ان کا دفاع کرنے میں ناکام رہی ہے۔ قابل وکلاء نے اپنی بھر پور توانائیاں صرف کیں لیکن جب مقدمہ ہی کمزور ہو ،اس کے دفاع میں کبھی قطری خط ،کبھی خالی تقریریں، پارسائی کے دعوے اور صرف اپنی’ دیانت ‘کے ڈھول بجائے جائیں تو وکیل کیا کرے؟خواجہ حارث اور سلمان اکرم راجہ نے خوب مال بنا لیا ہے ،ان کو بھی پتہ تھا کہ دفاع ممکن نہیں لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اتنے کروڑوں کی فیس والا مقدمہ بھی اور نہیں ملے گا ۔
جناب نواز شریف اور جناب زرداری کی شخصیات کا تجزیہ کیا جائے تو ان کو اچھے کاروباری مینیجرز، فواد چوہدری کے بقول’’ٹھگز آف پاکستان‘‘ کے سرغنے کہا جا سکتا ہے۔میں اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پچھلے 30 برسوں کا احاطہ کرتا ہوں تو یقین کریں ،مجھے پاکستانی قوم مجموعی اور کُلی زوال کا شکار نظر آتی ہے ،پاکستان کے لوگوں کی تعداد بڑھی ہے۔ آبادی بہت ہی بے ہنگم انداز میں بڑھ رہی ہے، اس قوم کی استعداد کم ہوئی ہے،یعنی قابلیت کا معیار کم ہوا ہے۔اس میں کوئی شعبہ بھی محفوظ نہیں رہا ۔تعلیمی معیار دیکھیں تو یونیورسٹیز کی تعداد بڑھی ہے لیکن ان کی علمی عظمت کو زوال ملا ہے۔کرکٹ ٹیم اور کرکٹ بورڈ کی قیادت بھی صحافی کرتے رہے،جن کا کام قلم اُٹھانا تھا وہ کرکٹ کھلانے لگے۔اسی طرح صحافت کے شعبے میں بھی ’’کالی بھیڑیں‘‘ گُھس گئیں جنہوں نے صحافت کا نام بیچا ،قلم کی تجارت کی ،معمولی قابلیت اور اوسط درجے کی ذہانت لیے لوگ صحافت کا ٹیگ لگا کر سیاسی جماعتوں کے ترجمان بن گئے۔انہوں نے ضمیر بیچا ،قلم بیچا ،عہدے پائے، کُرسی ملی، پلاٹ ملے، پیسے ملے لیکن اس کے بدلے کرپٹ سیاست دانوں کو نجات دہندہ لکھتے رہے۔ قوم کے رہبر اور امیرالمومنین بنا کر پیش کرتے رہے۔ان قلم فروشوں نے سب کچھ پایا لیکن عزت و احترم کھو بیٹھے۔ لوگ ان کو دیکھتے ہی سمجھ جاتے ہیں کہ کسی کرپٹ کا’ دفاعی مورچہ‘ ہیں۔ان کا کمال یہ ہے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایسے پانی میں مدھانی ڈالتے ہیں کہ لگے جیسے ابھی اس پانی سے مکھن کے پیڑے نکلنے ہی والے ہیں۔الفاظ کی ایسی جغالی کرتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ کہنا کیا چاہتے ہیں ،حق کے ساتھ ہیں ،یا باطل کے نمک خوار ہیں؟
جس تاریخی زوال کا حوالہ پیش کر رہا ہوں اس کا سب سے بڑا شکار ،سیاستدان ہو ئے ہیں۔میں سمجھتا ہوں پاکستان اور پاکستانی قوم کے ساتھ بڑا ظلم ہو ا ہے کہ سیاست وہ شعبہ ہے جس نے قوم کی قیادت کرنا ہو تی ہے ،ان کے لیے کوئی شرط ہی نہیں ،نہ کوئی تعلیم ،نہ کوئی تربیت،نہ کوئی معیار اور نہ ہی کوئی اخلاقی برتری کی شرط لازم رکھی گئی۔بس ایک ہی معیار ہے جو زیادہ پیسہ رکھتا ہے وہی سیاستدان ہے،وہ پیسہ کہاں سے لاتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ایک وقت تھا جب پُرانے سیاستدان تھے لیکن وہ خاندانی لوگ تھے ،اپنی سیاست اپنی جیب سے کرتے تھے،ان لوگوں نے اپنی سیاست کی خا طر اپنی زمینیں بیچ دیں لیکن کرپشن نہیں کی۔آج کے سیاستدانوں کو دیکھیں تو چھوٹے لوگ ،بونے لوگ ،چاپلوسی اور پیسے کے زور پر سیاست میں گُھس آئے ہیں ۔ان کا کام کرپشن سے پیسا بنانا اور اس پیسے سے دوبارہ سیاسست کرنا ہے۔جب سے نواز شریف کو عدالت سے سزا ہوئی ہے اور زرداری کی کرپشن کا بھانڈا ،جے آئی ٹی نے بیچ چوراہے پھوڑ کے رکھ دیا ہے ،کوئی ایسا ضمیر آپکو نظر آیا جس نے ہلکی سی خلش محسو س کی ہو ؟میں تو ان نام نہاد جمہوری خطیبوں کو ڈھونڈ رہا ہوں جو بالوں کی پونی بنائے پارلیمنٹ کی راہداریوں میں اکڑ اکڑ چلتے ہیں اور آقا کی آشیر باد پاتے ہی پارلیمنٹ میں خطاب جھاڑنے آ جاتے ہیں۔ان کی جمہوریت سے ایسی محبت کہ ان کے منہ سے جھاگ کے فوارے نکلنے لگتے ہیں ،جمہوریت کی محبت میں ایسے تڑپتے ہیں کہ ان کی ہچکیاں ،ہال میں موجود ممبران کا دل نرم کرنے لگتی ہیں۔ان جمہوری مبلغین سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ زرداری کی کرپشن،لوٹ مار اور نوازشریف کی سزا کے بعد آپ کے ضمیر نے ہلکی جُنبش بھی محسوس نہیں کی؟
مجھے تو ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے اس رائج الوقت نظامِ سیاست کو خداحافظ کہنے کا وقت آن پہنچا ہے۔جب قومیں اپنے ظالم حکمرانوں کو پہچاننے میں دیر کرتی ہیں تو ان قوموں کو اس کوتاہی کا تاوان ادا کرنا پڑتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ تاوان ادا کر چکے ہیں ،اب ان رہبر نُما رہزنوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا وقت آگیا ہے۔جب ایک چھپڑ میں تازہ پانی نہ ڈالا جائے تو پرانا پانی بدبودار ہو جاتا ہے،سیاست کے چھپڑ کی بدبو نے تو پوری قوم کی سانسیں بند کر رکھی ہیں۔اس چھپڑ کی بدبودار بڑی مچھلیوں کو نکالنے کا وقت آن پہنچا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کیسے لوگ ہیں جو آج بھی ان ’چوروں‘ کا دفاع کر رہے ہیں۔جناب وزیراعظم ،حیرت کی کوئی بات نہیں ،ان کی شکلیں دیکھ کر ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ سسلین مافیا کے کارندے ہیں ،جو سیاسی کارکنوں کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ الطاف حسین کے کارندے بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے،اب کہاں ہیں؟ان کے دلائل ،اپنی اپنی قیادت کی کرپشن کے جواب میں سُننے کے لائق ہیں ۔سوال ہوتا ہے کہ زرداری اور نواز شریف نے لوٹ مار کی ہے؟ جواب ہو تا ہے سیتا وایٹ ۔سوال ہوتا ہے کہ اومنی گروپ ؟ لندن فلیٹس ؟ جواب ہوتا ہے فوج ،اسٹیبلیشمنٹ ۔ان کی چیخ و پکار بتا رہی ہے کہ ’’ٹھگز آف پاکستان‘‘ فلاپ ہونے جا رہی ہے، پچھلی 3 دہائیوں سے مسلط نظامِ زر ہے خطرے میں!!!
 

شیئر: