Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بےنظیر میری نظر میں

کراچی (صلاح الدین حیدر) ایک بلند حوصلہ خاتون، دنیائے اسلام کی پہلی وزیراعظم، نڈر اور بے باک، مصیبتیں بہت پڑیں لیکن انہوں نے سب کا ہمت اور بے جگری سے مقابلہ کیا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایک متمول اور سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود بہت سادہ، خوش اخلاق اور بہترین میزبان تھیں۔ میری ان سے کئی مرتبہ ملاقاتیں ہوئیں۔ پاکستان میں ہوں یا ملک سے باہر، ہر جگہ ہر موقع پر وہ خوش اخلاقی اور محبت سے ملیں۔ خوش گفتار، ایک بہت بڑے باپ کی بیٹی، بچپن سے ہی والد چونکہ وزیر خارجہ اور بعد میں صدر اور وزیراعظم رہے، ان کی خدمات وطن عزیز کے لئے مثال تھیں۔ میں جب بھی بےنظیر کے گھر بلاول ہاوس، کراچی میں ملنے گیا انہوں نے اپنی مثالی مسکراہٹ سے استقبال کیا۔ ہر موضوع پر بے دھڑک اور با آسانی اپنے خیالات کا اظہار کرتی تھیں۔ بہادری ان کے خون میں پیدائشی تھی۔ یہ درست ہے کہ صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کی ضرورت ہوتے ہیں۔ نواز شریف اور الطاف حسین اور ان سے پہلے بہت سارے سیاستدانوں بشمول شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ مجھ سے اچھی خاصی ملاقاتیں رہتی تھیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سینے میں کئی ایک راز دفن ہیں جنہیں قوم کے سامنے رکھنے کےلئے اکثر بے قرار ہوجاتا ہوں پھر کچھ اسرار و رموز ایسے ہوتے ہیں جنہیں زبان پر لانے سے وطن عزیز کے وقار پہ منفی اثر ہوگا اسی لئے خاموشی پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔
شوہر کی قید اور درجنوں مقدمات سے بھٹو کی بیٹی جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوئیں۔ وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی ان کے بھائی مرتضیٰ کو شام ڈھلے ان کے گھر کے سامنے شہید کردیا گیا۔ بے نظیر نے سوگ کی تصویر بنی ایک دو جلسوں سے خطاب کیا اور کچھ ماہ بعد اقتدار سے محروم کر دی گئیں ۔آفرین ہے کہ وہ زرداری سے ملنے کراچی جیل میں بچوں کو ہاتھوں میں اٹھائے پیدل چل کر اپنی کار تک جاتی تھیں۔ نواز شریف کی طرح کوئی گاڑیوں کا کاررواں ان کے پیچھے نہیں ہوتا تھا۔ تن تنہا وہ تمام دشواریوں کا ہمت اور حوصلے سے مقابلہ کرتی تھیں۔ مجھے یاد ہے 1997ءکے انتخابات میں ان کی پیپلز پارٹی کو جو کہ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو نے 1967ءمیں قائم کی تھیں شکست ہوئی۔ وہ اپنی لاجواب مسکراہٹ چہرے پر سجائے ہوئے گھر کی طرف آئیں تو تینوں بچے، بلاول، بختاور اور آصفہ پر غم کا اثر دیکھ کر کہنے لگیں، کیا ہوا تمہارے چہرے ایسے مرجھائے ہوئے کیوں ہیں؟ بچوں نے روتے ہوئے کہا کہ امی آپ ہار گئیں ناں۔ بےنظیر نے کہا تو کیا ہوا؟ ہار جیت تو زندگی کا حصہ ہے۔ ہنسو، کھیلو ، جیو، غم کو بھول جاﺅ۔ آج شکست ہوئی، کل فتح بھی ہوگی۔ بچوں کو انہوں نے ہمت اور بہادری کا سبق دیا۔ والد کی طرح وہ بھی دنیا کی بہترین تعلیم گاہوں ہارورڈ اور آکسفورڈ میں پڑھ چکی تھیں۔ ان کے بعد ان کے بیٹے بلاول نے بھی آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی۔ ایک ماں اپنے بچوں کی تربیت کیسے کرتی ہے۔اس کی 2 مثالیں پیش کئے دیتا ہوں۔ بلاول ہاوس کے ڈرا ئنگ روم میں ہم بیٹھے تھے کہ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی آصفہ، آیا کے ساتھ آئی کہ واک کےلئے جانا ہے۔ میز پر لگے ہوئے ناشتے سے اس نے مٹھائی اٹھانے کی کوشش کی بےنظیر نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارا ”نو“ تم ایک پکوڑا لے سکتی ہو، موٹی نہیں ہونا، میں کوئی مٹھائی نہیں دوں گی۔ بے چاری ننھی منھی بچی چپ چاپ باہر چلی گئی۔ دوسری مثال دبئی میں اس وقت کے زرداری کے پارٹنر اقبال میمن کی بیٹی کی شادی کی ہے جہاں ہم بھی مدعو تھے۔ بے نظیر تشریف لائیں اور سب سے آگے والی میز پر بیٹھ گئیں۔ لوگوں نے انہیں گھیر لیا، میری بیوی ٹیبل سے اٹھیں، جاکر ان سے ملاقات کی۔بے نظیر بہت خوش ہوئیں، اٹھ کر بیگم کو گلے لگایا۔ گالوں پر پیار کیا اور بلاول کو جو ساتھ بیٹھا تھا حکم دیا کہ بیٹاآنٹی کو اٹھ کر سلام کرو۔ تربیت کس قدر عظیم تھی کہ بلاول بلا تامّل اٹھا۔ میری بیوی کو ماتھے تک ہاتھ اٹھاکر سلام پیش کیا۔ یہ ہوتی ہے تہذیب اور ماں کی تربیت۔ جب بھی میں دبئی گیا وہ بہت اخلاق سے مجھے لنچ اور ڈنر پر بلاتی تھیں۔ بہت عزت دیتی تھیں۔ ہر قسم کے موضوع پر تبادلہ خیال کرتی تھیں۔ان کے لہجے میں خلوص تھا، ایک بے باکی تھی۔ جنرل ضیاءالحق نے بھٹو کو پھانسی دے دی۔ بینظر اور والدہ نصرت کو تدفین پر جانے کی اجازت نہیں دی گئی، ایک بریگیڈیئر نے انہیں لاڑکانہ کے گھر سے کراچی میں والد کے گھر کلفٹن 70- میں لاکر مکان ان کے حوالے کیا۔ پوچھا کہ میں آپ کےلئے کیا کچھ کر سکتا ہوں۔ غصے کے عالم میں اس نوجوان لڑکی نے بے دھڑک کہا۔ ہاں میں ضیاءالحق کے خلاف قتل کی پولیس رپورٹ لکھوانا چاہتی ہوں۔ بے چارہ بریگیڈیئر چپ چاپ وہاں سے چلا گیا۔ اس کے پاس جواب نہیں تھا۔
وہ صحیح معنوں میں عوامی لیڈر تھیں۔ ہزاروں، لاکھوں کے مجمع میں شعلہ بیانی ان کا خاصہ تھا۔ وطن واپس آتے وقت 17 اکتوبر 2007ءکو میں دبئی میں تھا۔ پریس کانفرنس میں بہت سے لوگوں نے ان سے پاکستان واپس جانے سے منع کیا کہ ان کی جان خطرے میں ہے وہ اپنی جگہ مصر تھیں۔ پاکستان واپس آئیں۔ پہلے دن ہی ایئر پورٹ کے راستے میں کاروں کے کاررواں پر بموں سے حملہ ہوا۔خوش قسمتی تھی بچ گئیں، اس حادثے میں 150 لوگ ہلاک ہوئے وہ پھر بھی انتخابات کی تیاری میں لگ گئیں۔ میری آخری ملاقات ان سے لاہور میں نومبر کے آخر میں ہوئی۔ اس کے ایک ماہ بعد انہوں نے راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر اپنی جان قوم پر قربان کردی۔ قوم ایک نڈر لیڈر سے محروم ہوگئی ان کی یاد دل سے کبھی بھی بھلائی نہیں جا سکتی، وہ بہت بڑی ہستی تھیں، اس میں کوئی شک نہیں ۔

شیئر: