Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیا سال اور شامی عوام کی آرزوئیں

اکرم البنی ۔ الشرق الاوسط
کنٹرول سے خارج تشدد نے شامی شہریوں کے طریقہ حیات میں نہ جانے کتنے تضادات اور نہ جانے کتنی دراڑیں پیدا کردی ہیں۔ ان کے خواب اور انکی آرزوئیں بھی بدل گئی ہیں۔ اقتدار پسندو ںکی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہے۔ انہیں کسی کے دکھ درد سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انسانوں کاقتل اور وطن عزیز کی تباہی انکے یہاں فخر و اعزاز کی علامت بنا ہوا ہے۔ اسے وہ اپنی فتح سمجھ رہے ہیں۔
اکثر شامی عوام نئے سال کی بابت کسی اچھے احساس میں مبتلا نہیں۔ بیشترکا خیال ہے کہ آنے والاسال 2018ءسے کسی درجہ کم برا نہیں ہوگا۔ شامی عوام اپنی آرزوﺅں کاد ائرہ اس حد تک محدود کررہے ہیں کہ انہیں نئے سال میں مصائب جانے والے سال کے مقابلے میں کم پیش آئیں۔ سیاسی اور عسکری تبدیلیاں اچھی آرزو باندھنے کی اجازت ہی نہیں دے ر ہیںبلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سیاسی اور عسکری تبدیلیاں مزید جبر و قہر کا خوف دلا رہی ہیں۔ تبدیلیوں سے یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ شامی عوام کے خواب مزید کچلے جائیں گے۔تباہی و بربادی کی ہولناکی سے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ ہلاک اور لاپتہ ہوجانے والوں کی تعداد بچوں کو بوڑھا بنانے کیلئے کافی ہے۔ شام کے تمام عوام خواہ وہ پناہ گزیں ہو ں یا اپنے ملک کے اندر غیر محفوظ علاقوں سے قدرے محفوظ علاقوں میں منتقل ہوگئے ہوں یا بیرون ملک نقل مکانی کر گئے ہوں، سب کے سب تشددکے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اور انتہائی ناگفتہ بہ اقتصادی حالات اور بدامنی کے عالم میں روزی روٹی کا انتظام کرنے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ 
ایسے عالم میں جبکہ شامی پناہ گزیں خیموں میں الگ تھلگ زندگی گزارنے پر مجبور کردیئے گئے ہوں۔ ایسے خیموں میں رہ رہے ہوں جو انسانی رہائش کے قابل نہیں۔ ایسے عالم میں جبکہ ادارے انکی سرپرستی نہ کررہے ہوں۔ بین الاقوامی امدادی تنظیموں کی امداد پر انکی گز ربسر ہو۔ خوراک، ملبوسات، تعلیم اور صحت نگہداشت تک کیلئے انہیں عالمی تنظیموں کی جانب دیکھنا پڑ رہا ہو۔ بچوں اور بچیوں کے مسائل ناگفتہ بہ ہوگئے ہوں۔ سب کے سب مختلف امراض کی زد میں ہوں۔ انکا جسمانی استحصال ہورہا ہو۔ انہیں زبردستی اسیر بنانے کے مطالبے شدت پکڑ رہے ہوں۔ ایسے عالم میں وطن کے اندر یا وطن کے باہر شامی کیا آرزو باندھیں گے ،کیا خواب دیکھیں گے؟ ان میں سے بعض وہ بھی ہیں جنہیں گداگری پر مجبور کردیا گیا ہے۔ بہت سارے ایسے ہیں جو روزی روٹی کیلئے انتہائی معمولی قسم کے کام کرنے پر مجبور خود کو پا رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ ان کے ذہن و دماغ میں اپنے لاپتہ افراد کا پتہ دریافت کرنے تک کی جرا¿ت نہ ہورہی ہو۔ جرات نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ممکن ہے کہ وہ شامی سرکار کی جیلوں میں پڑے سڑ رہے ہوں اور اسکا بھی امکان ہے کہ انہیں شامی حکمرانوں نے زندہ درگور کردیا ہو۔ شام کا منظر نامہ یہ ہے کہ جگہ جگہ چیک پوسٹیں بنی ہوئی ہیں۔ فوجی او رسیکیورٹی اہلکار کسی بھی شخص کو روک کر کسی بھی انداز سے تلاشی لے سکتے ہیں۔ کسی کو اعتراض کی مجال نہیں۔ دوسری جانب گرانی نقطہ عروج کو پہنچی ہوئی ہے۔ گیس، تیل جیسی بنیادی ضروریات فراہم کرنا بیحد مشکل ہے۔ پانی و بجلی کی ترسیل وقتاً فوقتاً منقطع ہورہی ہے۔ صحت خدمات ، تعلیم اور بنیادی ضرورتوں کا ڈھانچہ تہس نہس ہوچکا ہے۔ کیا ایسے شامی جنہیں مسلح اپوزیشن کے زیر کنٹرول علاقو ںمیں رہنے پر مجبور کردیا گیا ہو،کیا وہ اپنی کسمپرسی سے نجات کی آرزو کرسکتے ہیں؟ کیا وہ خواب دیکھ سکتے ہیں کہ انکی ناکہ بندی ختم ہوگی؟ کیا وہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ شامی ، ایرانی ، ترکی بم کی برسات بند ہوسکتی ہے؟اسی کے ساتھ انتہا پسند مسلم جماعتوں کے درمیان مسابقت کے معرکے بھی نقطہ عروج کو پہنچے ہوئے ہیں۔عام شہریوں سے کوئی تاوان وصول کررہا ہے، کوئی کسی عنوان یانام سے ان سے مختلف خدمات لے رہا ہے۔ بچوں کو جارحانہ عزائم کے درس دیئے جارہے ہیں۔ ایسے عالم میں شامی شہری کیا یہ آرز و کرسکتے ہیں کہ نیا سال آئیگا تو تفتیشی چوکیوں سے انہیں نجات مل جائیگی؟ امریکہ شام سے اپنی ا فواج واپس بلا رہا ہے ۔ یہ اسکا حق ہے لیکن امریکہ کے انخلاءسے ایسے شامیوں کے مسائل بلاشبہ دو چند ہوجائیں گے جنہیں امریکہ کی فوجی موجودگی سے کسی قدر تحفظ حاصل تھا۔آئندہ مرحلے میں شامی اپوزیشن کے درمیان اپنی غلطیوں کے ذمہ دارانہ اعتراف کی فضا برپا ہونے کی آرزو کی جاسکتی ہے۔ کاش کہ شامی اپوزیشن کے رہنما دشنام طرازی اور مبالغہ آمیزی سے بالا ہوکر حقیقت پسندانہ احتساب کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: