Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومتی طرز عمل اور ملکی صورتحال

***ڈاکٹرمنصور نورانی***
وطن عزیزکی معاشی و اقتصادی حالت ویسے تو تقریباً ڈیڑھ سال ہی سے معطل ہوکر رہ گئی لیکن اُس میں مزید گراوٹ اور انحطاط پذیری جس تیزی کے ساتھ جولائی 2018ء کے الیکشن کے بعددیکھنے میں آئی ہے اُس سے پہلے شاید کبھی دیکھی نہیں گئی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدرایک مختصر سے وقت میں پہلے کبھی اتنی گری نہ تھی۔ضروریات زندگی کی ہرشئے اب عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیںبڑھانے کے باوجوداُن اداروں کے خسارے ہیں کہ کم نہیںہوپارہے۔ساتھ ہی ساتھ گیس کی لوڈ شیڈنگ نے ملک بھر میں اور خاص کر صوبہ سندھ میںایک خطرناک صورتحال اختیارکرلی ہے۔وہ بحران جوگذشتہ حکومت کی کوششوں سے کسی حد تک ٹل گیا تھا اورپچھلے برس سردیوں کے موسم میں بھی کسی ممکنہ لوڈ شیڈنگ سے بچ گیا تھا اب ایک بار پھر سر اُٹھانے لگا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ہماری انڈسٹری کا پہیہ رک سا گیا ہے بلکہ گھریلوصارفین کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ وزیراعظم سمیت اُس کے تمام وزراء عوام الناس کے مسائل حل کرنے کی بجائے اپوزیشن سے محاذ آرائی میں اُلجھے ہوئے ہیں۔اُن کی کوئی تقریر اورکوئی بھی بیان اپوزیشن کو لعن و طعن کئے بناء پورا نہیں ہوتا۔ایک طرف وہ نیب کو ایک آزاد ادارہ بھی کہتے ہیں اوردوسری جانب اُس کے کاموں میں نہ صرف مداخلت کررہے ہیں بلکہ اُس کی کارگزاریوں کا کریڈٹ بھی خود لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے احتجاج کرنے کو چیخوں سے تشبیہہ دیکر اشتعال کووہ مزید ہوا دے رہے ہوتے ہیں۔جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی لیکن اُس کی رپورٹ کو وہ اپنی کامیابی گردانتے ہوئے یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں جیسے یہ سب کچھ انہی کی ایماء پر ہورہا ہے۔نیب زدہ اپنے لوگو ں کو کھلی چھوٹ اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والوں کو ای سی ایل میں ڈال کر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح وہ لوٹی ہوئی دولت واپس لے آئیں گے۔
پانامہ لیکس میں ہمارے علاوہ دنیا کے بہت سے ملکوں کانام بھی شامل تھا لیکن کیا وہاں اِسطرح کی کوئی ایک کاروائی بھی کی گئی۔ہمارے یہاں جس وزیراعظم کانام بھی اُس میں براہ راست شامل نہیں تھااُسے تو ہم نے سپریم کورٹ کے ایک حکم سے پہلے ہی فارغ کردیا۔پھر اِس پر بھی بس نہ چلا تو اُسے من پسند افراد پر مشتمل جی آئی ٹی بناکر سزا بھی سنادی حالانکہ جب یہ معاملہ اُٹھایا گیا تھا تو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پانامہ اسکینڈل میں شامل تمام 480 افراد کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیاگیاتھا جسے یہ کہکر منظور کرلیاگیا کہ چونکہ میاں صاحب وزیراعظم ہیں لہذا سب سے پہلے اُن کے خلاف تحقیقات ہونگی اور پھر باقی دوسروں کے خلاف لیکن دیکھا یہ گیا کہ صرف ایک شخص کو نشانہ بنا کراورمطلوبہ مقاصد حاصل کرکے باقی کسی اور کے خلاف کوئی کاروائی بھی نہیںکی گئی۔ہمارے ملک میں احتساب کا عمل کبھی بھی اِس لئے کامیاب نہیں ہوپاتا کہ وہ مکمل غیر جانبدارانہ، بلاامتیاز اور شفاف نہیں ہوتا۔احتساب کی آڑ میں ہمیشہ امتیازی اور یکطرفہ سلوک روا رکھا گیا۔ خان صاحب ببانگ دہل کرپشن کے خلاف جہاد کرنے کا دعویٰ تو کررہے ہیں لیکن اپنے لوگوں کو اُس سے بچا کر وہ جہاد جیسے مقدس لفظ کو بھی بدنام کرتے پھررہے ہیں۔آج یہ شور شرابا ہمارے کانوں کو بے شک اچھا لگ رہا ہو لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اِس طرح کی جانبدارانہ احتساب کی کبھی بھی کوئی وقعت اور حیثیت نہیں ہواکرتی۔ 
یہاں جب کسی کے خلاف کوئی کاروائی کرنا مقصود ہوتو اُس کے سارے جرائم کھول کر سامنے رکھدئیے جاتے ہیں اورجسے بچانا ہوتواُس کے سارے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں۔ ماضی میں ہم نے متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف بھی ایسا ہی کچھ ہوتے دیکھا ہے۔ 12مئی 2007ء کے سانحہ سے لیکر بلدیہ فیکٹری میں آگ لگانے جیسے کیس تک متحدہ پر کیا کیاالزا م نہیں لگائے گئے لیکن نتیجہ وہی صفر کا صفر۔ 
 

شیئر: