Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پاکستان ایسے ہی چلتا رہے گا؟

***ڈاکٹر منصور نورانی***
یہ90کی دہائی کا زمانہ تھا جب 11سالہ طویل آمرانہ دور کے بعد جمہوریت نے اِس ملک میں پھرنئے سرے سے جنم لیا  ۔ عوام کے ووٹوں سے کسی سیاسی پارٹی کی حکومت نے عنانِ حکومت سنبھالا۔ سیاست اور جمہوریت کو اپنی مرضی و منشاء کے تابع رکھنے والوں کیلئے یہ لمحہ شایدبہت ناگوار اور ناپسندہ تھا لہذا کوشش کی گئی کہ کوئی حکومت بھی اپنی دستوری اور آئینی مدت پوری نہ کرپائے ۔ اِس مقصد کیلئے جنرل ضیاء کی طرف سے عطا کردہ آئین کی آٹھویں ترمیم کا بے رحمانہ استعمال کیاجاتا رہا۔ 58-B2کی تیز دھارتلوار کے ذریعے جمہوری حکومتوں کامسلسل قتل ہوتا رہا ۔ طرفہ تماشہ یہ کہ نظام کی ناکامی کا سارا الزام بھی جمہوری حکومتوں کے سر تھونپاجاتارہا۔کرپشن اور بدعنوانیوں کے الزامات لگا کراُس دور میں ایک نہیں مسلسل 4حکومتوں کو فارغ کیاگیا لیکن کسی پر بھی کرپشن کا کوئی الزام ثابت کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی بلکہ اُنہیں بار بار منتخب کرواکے خود اپنے کہے کی تردید اورنفی بھی کردی گئی۔کچھ سیاستدانوں کو اِن الزامات کی صحت وصداقت کے بناء ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاگیا پھر ضرورت پڑنے پر بڑے عزت و احترام کے ساتھ سیدھے جیل سے وزارت کا حلف اُٹھانے کیلئے ایوان صدر بھی لایا جاتارہا۔میاں صاحب اُن دنوں چونکہ سیاست میں نئے نئے وارد ہوئے تھے شاید اِس لئے وہ مہربانوں کی اِن چالوں کو سمجھ نہیں سکے ۔ اُنہیں اپنا ہمدرد اور خیر خواہ سمجھ کراُن کے احکامات کی تعمیل اور بجاآوری کرتے رہے۔انہیں قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ جو گیم وہ آج کسی کیخلاف کھیل رہے ہیںکل خود بھی اُس کا شکار ہوسکتے ہیں پھر لوگوں نے دیکھا کہ ہوا بھی یونہی ۔چند سالوں میں ساری حقیقت میاں صاحب پر واضح ہوگئی ۔
1993میں جب اُن کی پہلی حکومت معزول کی گئی تو اُس وقت کی عدلیہ ا گرچہ میاں صاحب کی تائید و حمایت میں کھڑی بھی ہوگئی  صد ر مملکت اسحاق خان ابھی کہاں ہمت ہار نے والے تھے ،اُن کے ترکش میں پڑے بہت سے تیر ابھی چلنا باقی تھے۔ پنجاب میں مسلم لیگی وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں کیخلاف اپنے ہی ساتھیوں نے منظور وٹو کے ساتھ ملکراچانک عدم اعتماد کی تحریک لاکر سارا نقشہ ہی بدل ڈالا پھرایک طرف باربار منظور وٹو کے ہاتھوں پنجاب اسمبلی کا توڑے جانا اوردوسری جانب لاہور ہائی کورٹ کا اُسے بحال کرتے جانا،طاقتور اور کمزور حلقوں کے بیچ محاذ آرائی کا یہ افسوسناک دور بھی ہماری تاریخ کے صفحات پر آج بھی موجود ہے۔ بے نظیر بھٹو نے اِس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یا کسی نادیدہ قوت کے اشارے پر مکمل عمل پیرا ہوتے ہوئے وفاقی حکومت کیخلاف لانگ مارچ کا اعلان کردیا جس کی بھرپور مد د اور کمک کیلئے منظور وٹو پہلے سے تیار بیٹھے تھے۔نتیجتاً ڈکٹیشن نہ لینے کامسمّم ارادہ کرنے والے میاں صاحب نہ صرف ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہوئے بلکہ اپنے ہاتھوں سے استعفیٰ لکھ کر3 ماہ کے نگراں دور کے وزیراعظم کیلئے معین قریشی کے نام پر بھی رضا مندی ظاہر کردی۔
پاکستانی سیاست ایسے افسوسناک اور اندوہناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔حقائق عوام کی نظروں سے خواہ کتنے ہی چھپائے جائیں یامعاملات کتنے ہی خفیہ رکھے جائیں لیکن وہ تاریخ کے صفحات پر درج ہوہی جاتے ہیں۔کیا سچ ہے اور کیاجھوٹ ایک دن عیاں ہوہی جاتا ہے۔یہاں کب کون کسی کامنظور نظر بن جائے اور کب کسی کی نظروں سے اِس طرح گرجائے کہ اُسے سنبھلنے کا موقع بھی نہ ملے اور وہ صحافیوں سے اپنی بے بسی کا اظہار یوں کرتا پھرے کہ ہنسنا تودور کی بات ہے ہمیں تو کھل کر رونے بھی نہیںدیاجاتا۔
شومئی قسمت سے آج خان صاحب بھی اُنہی اداروں کے منظور نظر بنے ہوئے ہیں جن کے کبھی خود میاں صاحب ہوا کرتے تھے۔وطن سے بے لوث محبت اور دفاعی قوتوں سے عہد وفانبھانے کے دعوے جس طرح آج خان صاحب کررہے ہیں کبھی میاں محمد نواز شریف بھی کیاکرتے تھے۔اپنے مخالفوں کیلئے نظروں میں انتہائی نفرت اور لہجہ میں شدید تلخی بھی بالکل اُسی طرح ہے جیسے کبھی میاں صاحب کے انداز تکلم میں ہواکرتی تھی۔حالات کی سختی اور زمانے کی سنگینی نے میاں صاحب کو بہت عاجز ، کمزور اور کم گو بنادیا ہے لیکن خان صاحب کاجوش اور جذبہ ابھی تازہ تازہ ہے۔ انہیں اقتدار کے مزے لوٹتے ہوئے ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں۔فی الحال وہ اپنے سرپرستوں کی محبت اور شفقت کے نشے میں مست اور چور ہیں۔اداروں کی بھرپور تائید و حمایت کے جھولے وہ بڑی مسرت اور شادمانی سے جھول رہے ہیں۔زمانے کے عطا کردہ مسحورکن لمحات اوراحساسات سے سرشارہوکر وہ اقتدار و اختیارات کی ندی میں خوب ڈبکیاں لگا رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اُنہیں اِسکے  سوا کچھ دکھائی اور سجھائی بھی نہیں دے رہا۔وہ طاقت کے نشے میں دھت ہو کر کسی کو خاطر میں بھی نہیں لارہے۔" کسی کو این آر او نہیں دونگااور سب کو جیلوں میں بند کردوں گا "جیسے دلفریب جملوں سے وہ اپوزیشن کو خوفزدہ کرنے سے زیادہ خود کو اپنے وزیراعظم بن جانے کا یقین دلارہے ہوتے ہیںلیکن شاید اُنہیں پتا نہیں کہ یہاں تو دو تہائی اکثریت رکھنے والے حکمراں بھی جب نظروں سے گرجاتے ہیں تودور دور تک اُن کاپتا نہیں ہوتا۔یہ بے چارے تو صرف7 ووٹوں کی اکثریت سے نوازے گئے ۔یہ 7 ووٹ کب کسی غیبی اشارے کے ملتے ہی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں کسی معلوم نہیں۔ابھی تو نیا نیا معاملہ ہے اِس لئے ہاتھ ہلکا رکھا گیا ہے۔مزاج اور تیور بدلنے میں دیر نہیں لگاکرتی۔ملک کے معاشی و اقتصادی حالات اتنے کٹھن اوردشوار ہیں کہ خان صاحب پہلے اُنہی سے نمٹ جائیں تو بڑی بات ہے۔حساس معاملات کو چھیڑنا تو دور کی بات ہے۔ جب وہ وقت آئے گاتو ہم بھی دیکھیں گے کہ خان صاحب کی قابلیت اور لیاقت کیا جوہراورکرشمہ دکھاتی ہے۔
یہ قوم کا المیہ ہے کہ ایک مضبوط ، ترقی یافتہ اور مستحکم پاکستان کی اُس کی حسرت کبھی پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔دوسروں کا دست نگر، مجبور اورلاچار پاکستان شاید اُس کی قسمت میں لکھ دیا گیا ۔مایوسیوں اور ناامیدیوں کے بادل اُس کے سر سے شاید کبھی چھٹیں گے ہی نہیں۔لگتا ہے کہ روشن اور خوشحال مستقبل کے خواب ہمیشہ تشنۂ  تعبیر ہی رہیں گے۔دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بن جانے اور پاک چائنہ کوریڈور کی تعمیر کے باوجود ہمیں اپنے دیوالیہ ہوجانے کا خوف اور ڈر ہمیشہ ہی لگا رہے گا۔70سالوں سے ہم یہی دیکھتے آئے ہیں۔جب کبھی بھی حالات سازگار ہونے لگتے ہیں ، کوئی ناگہانی مصیبت اورآفت دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ہم پر مسلط کردی جاتی ہے۔بڑی عالمی طاقتیں تو ہماری دشمن ہیں ہی لیکن ہم خود بھی اپنے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ہم بہت جلد اپنے جمہوری حکمرانوں سے بددل اور بیزار ہوجاتے ہیں جنہیں ہم بڑی محبت اور چاہ کے ساتھ اپنے ووٹوں سے منتخب کرکے لاتے ہیںلیکن غیر جمہوری حکمرانوں کو بلا چوں و چرا دس دس سال تک برداشت کرتے رہتے ہیں۔جمہوریت اورسیاست کی اِس کمزوری اور ناپائداری کے سبب ہماری پالیسیاں بھی عدم استحکام کا شکار ہوجاتی ہیں۔ہمارا کوئی منصوبہ اور پراجیکٹ پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ پاتایا پھراُس کے مکمل ہونے میں اتنی تاخیر ہوجاتی ہے کہ اُس کی تمام تر اہمیت و افادیت بے مقصد اور بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کوئی غیر ملکی سرمایہ کار توکجا خود اپنے لوگ بھی سرمایہ کاری سے اجتناب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ایک شخص آتا ہے جو موٹر ویز اور بڑی بڑی شاہراہوں کو ملک کی ترقی کیلئے ضروری اور اہم قرار دیتا ہے جبکہ دوسرا شخص اِسے غیر ضروری او ر فضول کہکریکسر مسترد کردیتا ہے۔ہمارے قیمتی 25 سال اِسی کشمکش میں گزر جاتے ہیں اور ہمیں شاہراہوں کی اہمیت اُس وقت سمجھ میں آتی ہے جب کوئی دوسرا ملک ہمیں" سی پیک" کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کرتا ہے۔ ہمارا اپنا کوئی ذہن اور وژن نہیں ۔ ہم یونہی دوسروں کے رحم وکرم پر اپنی زندگیاں گزارتے رہیں گے۔یہی اِس ملک وقوم کا نوحہ ہے جسے ہم ہرچار پانچ سال بعداپنے آپ کو سناسناکر چپ چاپ رو لیتے ہیں لیکن آگے بڑھ کر اُسے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
 

شیئر: