Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چھوٹے ادارے اور قومی پیداوار

عیسیٰ الحلیان ۔عکاظ
ہر ملک کے معاشی نظام میں چھوٹے اور درمیانے سائز کے ادارے بنیاد کے پتھر کا درجہ رکھتے ہیں ۔ سعودی عرب کی قومی پیداوار میں چھوٹے اور درمیانے سائز کے اداروں کی شراکت کا تناسب بڑھانے کےلئے سعودی عہدیدار ابھی تک موثر طور طریقوں کی دریافت میں لگے ہوئے ہیں ۔ تلاش اس بات کی نہیں کہ ہمارے یہ ادارے دیگر ممالک کے اداروں کے آس پاس پہنچ جائیں، کوشش یہ ہے کہ سعودی ویژن 2030ءکےمطابق سعودی عرب کے چھوٹے اور درمیانے سائز کے اداروں کی موجودہ پیداوار میں کم از کم 15فیصد اضافہ ہو جائے ۔ 
سعودی حکومت چھوٹے اور درمیانے سائز کے اداروں کےلئے اتھارٹی قائم کر چکی ہے ۔ یہ خوش آئند امر ہے تاہم ان اداروں کے مسائل کے حل کےلئے ہمیں لمبی بلکہ بہت زیادہ لمبی مدت درکار ہے ۔ ان اداروں کو فنڈنگ ، بیوروکریسی اور منڈیوں تک رسائی کے مسائل درپیش ہیں ۔ انکی پیداوار کو دیگر ممالک کے ان جیسے اداروں کی پیداوار کے قریب تک لانے کا مسئلہ دور کی بات ہے ۔ ابھی تو انہیں قومی اقتصادی دھارے میں شریک کرنے کےلئے قانونی اور انتظامی ڈھانچہ تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ اس قسم کے اداروں کو مسائل کے جنگل سے نکالنے کی بنیادی شرط ہے ۔ ان کے جو مسائل ہیں وہ کثیر جہتی ہیں ۔ متعلقہ اتھارٹی تن تنہا ان اداروں کے جملہ مسائل حل نہیں کر سکتی ۔ مثال کے طور پر فنڈنگ کے مسئلے کو لے لیجئے ۔ اس کی گتھی سلجھانے کےلئے بینک قوانین میں وسیع البنیاد اصلاحات لانی ہوں گی ۔ یہ بات ریکارڈ پر لائی جانی ضروری ہے کہ جب سے ہمارے یہاں بینک سسٹم قائم ہوا ہے تب سے اب تک فنڈنگ کے طور طریقے اور قوانین جوں کے توں ہیں، ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ اگر جی 20میں شریک ممالک کو مثال کے طورپر لیا جائے تو سوئٹزرلینڈ کے حوالے سے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ وہاں چھوٹے اور درمیانے سائز کے ادارے قومی پیداوار میں 65فیصد کے حصے دار بنے ہوئے ہیں ۔ فرانس اور چین کا نمبر سوئٹزرلینڈ کے بعد ہے جہاں قومی پیداوار میں مذکورہ اداروں کا حصہ 58فیصد ہے ۔ انڈونیشیا (57فیصد )تیسرے ، امریکہ اور ترکی ( 54فیصد) چوتھے ، جرمنی ( 53فیصد) پانچویں ، میکسیکو اور برطانیہ (52فیصد ) چھٹے اور کوریا (51فیصد ) ساتویں نمبر پر ہے ۔جہاں تک سعودی عرب میں مذکورہ اداروں کا تعلق ہے تو یہاں مجموعی قومی پیداوار میں ان کا حصہ 20فیصد سے زےادہ نہیں ۔ ان اداروں کی اتھارٹی 2030ءتک ان کا حصہ 35فیصد تک پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے ۔ 
یہ ادارے مجموعی قومی پیداوار میں 1.1ٹریلین ریال کا اضافہ کر سکتے ہیں مگر نہیں کر رہے ۔ اس تناظر میں سعودی عرب کے چھوٹے اور درمیانے سائز کے اداروں کی پیداوار اور اسی طرح کے دیگر ممالک کے اداروں کی مجموعی قومی پیداوار میں 46فیصد کا فرق ہے ۔ مسئلہ اتنا ہی نہیں بلکہ یہ ادارے سعودی شہریوں کے روزگار کے سلسلے میں بھی دیگر ممالک کے اس طرح کے اداروں سے کافی پیچھے ہیں ۔ انڈونیشیا میں یہ ادارے 57فیصد ، کینیڈا میں 90، کوریا میں 88، چین میں 82، ہالینڈ میں 75، امریکہ میں 71، جاپان میں 70اور آسٹریلیا میں 68فیصد مقامی شہریوں کو روزگار دے رہے ہیں ۔ سعودی عرب میں یہ تناسب 14فیصد تک کا ہے ۔ 
مجھے یقین ہے کہ چھوٹے اور درمیانے سائز کے اداروں کا یہ گراف مجموعی قومی پیداوار اور روزگار کے حوالے سے سعودی عرب میں سرمایہ کاری اور کام کے ماحول کا حقیقی منظر دکھانے کےلئے کافی ہے ۔ آپ مزید کچھ جاننا چاہیں تو بینکوں سے رجوع کر کے معلوم کر لیجئے کہ وہ اس قسم کے اداروں کی فنڈنگ میں کتنا حصہ لے رہے ہیں ۔ 
 

شیئر: