Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عرب بحران اور میڈیا

محمد الماجد ۔ الشرق الاوسط
ایران عراق جنگ کے بحران سے لیکر کویت پر عراق کے غاصبانہ قبضے سے گزرتے ہوئے عرب ممالک میں آنے والے انقلابات، دہشتگردوں کی ہنگامہ خیزی اور داعش کی جانب سے نام نہاد ریاست کے قیام سمیت جتنے بحرانوں نے بھی عرب دنیا میں جنم لیا بعض عرب صحافیوں نے مناسب شکل میں انکی کوریج نہیں کی۔ 
تہلکہ خیز بحرانوں نے بعض ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ دیگر ممالک کو ہلا کر رکھ دیا۔ کئی کو ناکام ریاستوں میں تبدیل کردیا ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ انتہائی سنگین اور سخت بحران عرب صحافیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں ناکام ثابت ہوئے۔ کہتے ہیں کہ صحافت چوتھا ریاستی ادارہ ہے ۔ یہ ریاست کو کامیابیوں سے ہمکنار کرنے ، کامیابیوں کو مضبوط بنانے، غلطیوں کی اصلاح اور کارروانِ تعمیر و ترقی کو صحیح جہت دینے میں کلیدی کردارادا کرتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بعض عرب ماہرینِ ابلاغ کی کارکردگی جمود کا شکار رہی۔ عرب صحافیوں نے عہدیداروں کو اپنے تجزیوں اور تبصروں کا محوربنایا۔ مسائل اور انکی گتھیوں کو ایمانداری اور اخلاص سے حل کرنے اور سلجھانے کی فکر نہیں کی۔ صحافی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عہدیدار کی زبان اور حکومتی نقطہ نظر کے ترجمان اور شارح کے درمیان اور ابلاغی زبان اور وطن کے مسائل کو صحیح تناظر میں پیش کرنے میں فرق کرے۔ 
عرب دنیا کو جھنجھوڑنے والے بحرانوں میں عالمی رائے عامہ کو مخاطب کرنے کی اشد ضرورت تھی۔ اندوہناک حقیقت یہ ہے کہ عرب صحافیوں نے یہ کام اس انداز سے کیا گویا وہ داخلی رائے عامہ کو مخاطب کررہے ہیں۔
بین الاقوامی ابلاغی جھگڑوں سے نمٹنے کیلئے لفاظی کی نہیں بلکہ فکری زبان کے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں متعدد مغربی ممالک میں منعقدہ کئی عالمی تقریبات میں شریک ہوا۔ وہاں بعض عرب صحافیوں نے عرب دنیا کا منظر نامہ اس اندازسے پیش کیا جس میں عالمی میڈیا کی نمائندہ شخصیات کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسی وجہ سے انکی تشخیص اور انکا لیکچر مضحکہ خیز بن گیا۔جسمانی زبان سے مغربی صحافیوں نے اس قسم کی گفتگو کو لایعنی قرار دینے پر اکتفا کیا۔ عرب صحافی بولتے رہے اور مغربی صحافی لاچاری کے عالم میں انہیں بغیر سمجھے سنتے رہے۔
کئی عرب صحافی عرب ممالک کی حکومتوں کے جھگڑوں اور عرب اقوام کے تعلقات میں فرق کرنے سے بھی قاصر پائے گئے۔ عالمی رائے عامہ کو مخاطب کرتے وقت وہ ایسی زبان استعمال کرتے رہے جس میں خارجی رائے عامہ کی نمائندہ شخصیتوں کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ 
متعدد عرب ممالک کے کئی صحافی اپنے سیاسی قائدین کی تعریف و توصیف میں حد سے زیادہ مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔ یہ بات مغربی میڈیا میں بالکل پسند نہیں کی جاتی۔ اس قسم کی مبالغہ آمیزی میں نہ صرف یہ کہ مغربی ممالک کی کوئی دلچسپی نہیں بلکہ انکے یہاں اس کا کوئی کلچر نہیں اوران کے یہاں اس قسم کی باتیں ہوتی ہی نہیں۔ انہیں مسائل ، انکے اسباب، محرکات اورانکے حل سے دلچسپی ہوتی ہے۔ اس میں ہمارے یہاں کوتاہی پائی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: