Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’دیسی جمہوریت‘‘

***شہزاد اعظم ***
میراں بخش،ایک ریاضی داں، اسکول میں ہمارے استاد، اپنے نام کی طرح سادہ انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔مادری زبان پنجابی تھی مگرچونکہ وہ معماران قوم کی تعلیم و تربیت پر مامور تھے چنانچہ قومی زبان کو اولین ترجیح دیتے تھے ۔ وہ اتنے عظیم تھے کہ اس امر کا اقرار کرنے سے نہیں چوکتے تھے کہ میں گائوں کا رہنے وا لا ہوں،مجھے اپنے وطن اور اپنی قوم سے محبت ہے، مجھے ارضِ پاک کے ہر ا نسان سے، کھیت کھلیان سے ، اردو زبان سے ، اپنے پاکستان سے بے حد محبت ہے ہاں اتنا ضرور ہے کہ میرے جذبات، میرے احساسات، میرے خیالات سبھی پنجابی بولتے ہیں اس لئے جب یہ سب کیفیات مجھ پر حاوی ہوتی ہیں تو زبان سے ایک آدھ لفظ پنجابی کا بھی ادا ہو جاتا ہے، یہ میری جبلی مجبوری ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر جوش خطابت میںوہ ’’پھ‘‘ کی جگہ ’’ف‘‘ بول جاتے تھے مگر پھر بھی اردو بولنے سے کنی نہیں کتراتے تھے ۔ایک مرتبہ وہ طالبات سے ’’پاک‘‘ میٹرک کے الوداعیہ میں خطاب کر رہے تھے کہ انہوں نے طلباء سے اپنی قلبی محبت و مودت کا اظہار کرنے کے لئے شعر پڑھاتو وہ یوں سنائی دیا:
’’فلا فولا‘‘رہے یارب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں‘‘
دوسرا مصرعے میں جب میراں بخش صاحب ’’یہ بوٹے‘‘ کہنے لگے تو انہوں نے سامنے موجود طلبہ کی جانب اتنے بھرپور جذبات میں اشارہ کیا کہ ان کے ہاتھ سے ٹکرا کر مائیک زمین پر جا گرا۔ یقین جانئے آج جب ہم جذبات کی رو میں پیراکی کرنے والے میاں شہباز شریف کے ہاتھوں مائیک فرش پر گرتا دیکھتے ہیں تو میراں بخش صاحب کو یاد کر کے ہمارا دل ’’منہ پھاڑ کرکوکیں ‘‘ مارنے لگتا ہے۔
یہاں میراں بخش صاحب کا ذکرکرنے کا واحد مقصد یہ باور کرانا تھا کہ ہم اس قدر قیمتی شخصیت ہیں کہ جنہوں نے اتنے عظیم استاد  سے علم حاصل کیا ہے جو اردو کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے تھے۔ وہ نہ صرف ٹھنڈے ملک کی جامعہ سے ریاضی کی ڈگری لے کر آئے تھے بلکہ انہوں نے وہاں کے کالج میں تدریس کے فرائض بھی انجام دیئے تھے۔ اس کے باوجود ان کی گفتگو میں انگریزی کا بگھار بالکل نہیں ہوتا تھا البتہ جب انہیں کسی غیر ملکی سے انگریزی میں بات کرنی پڑ جاتی تو وہ اس طرح فر فر انگلش بولتے کہ سننے والا حیراں ہو جاتا۔
آج ہم اپنے ضمیر کی عدالت میں اپنا احتساب کرتے ہیں تو بہت سی حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔ان میں ایک سچائی یہ بھی ہے کہ اردو سے محبت،الفاظ کی ادائیگی ، ان کا زیر و بم، نثر نگاری اور شعر گوئی کا شوق، یہ سب میراں بخش کی تدریس و تربیت کا ہی نتیجہ ہے۔افسوس ہمیں اس بات کا ہے کہ آج میراں بخش جیسے لوگ ہی نہیں بلکہ ان جیسے اطوار بھی عنقا ہو چکے ہیں۔ آج حالت یہ ہے کہ ٹی وی پروگراموں میں آئندگانِ پاکستان کی شکل میںجن نوجوانوں کو معماران وطن کے طورپر متعارف کرایاجاتا ہے ان کی اکثریت ’’بے یارانِ وطن‘‘ دکھائی دیتی ہے۔’’سیکرٹ پینٹس ‘‘ اور ’’اوپن شرٹس‘‘ میں ملبوس ان ہستیوں کو کوئی’’ برگر‘‘ قرار دیتا ہے اور کوئی’’ماڈ‘‘۔ یہ اردو اس طرح بولتے ہیں جیسے کڑوی گولی نگل رہے ہوں۔ماضی میں بھی اس قسم کی شخصیات خال خال پائی جاتی تھیں مگر وہ ایسی اردو بولتی تھیں جس میں انگریزی کا تڑکا ہوتا تھا۔ آج کی یہ ’’جدید نسل‘‘ایسی انگریزی بولتی ہے جس میں کہیں کہیں اردو کا بگھار ہوتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ انگریزی کے اس قدر ’’دل دادا‘‘ اور’’دل دادی‘‘ ہونے کے باوجود عالم یہ ہے کہ ان سے ’’مس لینیئس‘‘ کے اسپیلنگ پوچھیں تو بتانے سے قاصر رہیں گے۔انہیں یہ بھی علم نہیں ہوگا کہ ’’has‘‘ اور ’’have‘‘ کے بعد ورب کی کونسی فارم استعمال کی جاتی ہے۔ اگر یہ بتا دیا تو کسی بھی جملے کو ’’ایکٹیو وائس‘‘ یا پیسیو وائس‘‘ میں تبدیل کرنا ان کے لئے کارِ دارد ہوگا۔اس لئے وہ بے چارے ادھر کے رہتے ہیں نہ اُدھر کے کیونکہ نہ تووہ اردو داں کہلاتے ہیں اور نہ ہی انگریز ان کی قدر کرتے ہیں۔نجانے کیوں ہمارے ہاں کے اکثر ’’بڑوں‘‘ کو بھی انگریزی سے خواہ مخواہ کا عشق ہے۔ ہم نے ایسے کتنے ہی افسران و صاحبان و عہدیداران دیکھے ہیںجو پاکستان کے اعلیٰ مناصب پر براجمان ہیں، میز پر پاکستان کا پرچم سجا ہے، اسی کے رنگ کی میز پوش ہے، قائد اعظم کی تصویردیوار پر آویزاں ہے اور آنے والوں سے موصوف یا تو خالصتاً انگریزی بول رہے ہیںیا انگریزی میں لتھڑی اردومیں گفتگو کر رہے ہیں ۔ یہ لوگ جب اپنے نام سے کوئی تحریر لکھتے ہیں تو اس میں ’’great‘‘ کی جگہ ’’venerated‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ ’’expatriate‘‘ کی جگہ ’’diaspora‘‘لکھتے ہیں۔ جب لوگ اسے سمجھ نہیں پاتے تو انہیں فخر ہوتا ہے کہ وہ اتنی ’’اہم‘‘ اور ’’ناقابل فہم‘‘ انگریزی پر عبور رکھتے ہیں۔یہی حال ہماری سیاست کا ہے جس میں’’جمہوریت‘‘ کے نام پر اغیار کی ایسی نقل کی جاتی ہے کہ جسے دیکھ کر اغیار بھی دانتوں میں انگلیاں دبا لیتے ہیں کہ ’’ایہہ کی ہوگیا‘‘۔حقیقت یہ ہے کہ ہمیں آج سیاست کے ’’میراں بخش‘‘ کی ضرورت ہے جو پاکستان میں صرف اور صرف پاکستانیت کی بات کرے اوراصلاح ملک و قوم کے لئے جہاں جہاں ضرورت ہو ’’دیسی جمہوریت‘‘کا چھتر بھی برسائے۔ ایسا نہ ہوا توکھربوں کے لٹیروں کی ضمانت ہوتی رہے گی اور نوالہ چُرانے والوں کی درگت بنتی رہے گی ،ظالموں کے منہ میں سونے کا نوالہ ہوگا اور بھوکے کامقام اڈیالہ ہوگا۔
 

شیئر: