سعودی وزیر کمیونیکیشن، انفارمیشن ٹیکنالوجی عبداللہ السواحہ نے کمپیوٹنگ انفراسٹرکچر میں عدم مساوات پر توجہ دلاتے ہوئے فیصلہ کن بین الاقوامی تعاون پر زور دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا’ اگر ایسا نہ ہوا تو دیگر اقوام مصنوعی ذہانت کے دور میں بہت پیچھے رہ جائیں گی۔‘
مزید پڑھیں
-
نئے تعلیمی سال سے ’مصنوعی ذہانت‘ کا مضمون نصاب میں شاملNode ID: 892060
ایس پی اے کے مطابق جینیوا میں انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن کی 160 ویں سالگرہ پر اپنے اہم خطاب میں عبداللہ السواحہ نے اس سلسلے میں چند عوامل کا حوالہ دیا۔
ان کا کہنا تھا’ اس وقت کمپیوٹر کے ذریعے کام چند ایک ریجنوں پر محدود ہے، کئی ممالک میں مصنوعی ذہانت کا انفراسٹرکچر نہیں ہے، ضابطے کی پالیسیاں نہیں ہیں اور گلوبل ساؤتھ کی گورنینس فریم ورک کی تشکیل میں شرکت محدود ہے۔‘
سعودی وزیر نے مزید کہا کہ ’آج دنیا وجودی فاصلے کے مسئلے سے دوچار ہے کیونکہ مصنوعی ذہانت تک رسائی میں خوفناک تفریق ہے۔‘
عبداللہ السواحہ نے کہا’ ماضی میں ٹیکنالوجی نے جو تبدیلی برپا کی ہے دنیا اس کے مراحل کو سامنے رکھ کر سبق سیکھ سکتی ہے۔ اینالوگ کے زمانے نے آٹھ سو ملین افراد کو ملانے میں ایک صدی لگا دی جبکہ ڈیجیٹل کے زمانے میں پانچ اعشاریہ پانچ بلین افراد کو باہمی طور پر کنیکٹ ہونے میں 50 برس لگے لیکن دو اعشاریہ چھ بلین افراد پھر بھی آپس میں جڑ نہ سکے۔‘

مصنوعی ذہانت کے زمانے میں بقول سعودی وزیر کے کمپیوٹنگ انفراسٹرکچر، ڈیٹا کی دستیابی اور الگوردمز میں فاصلے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ انسانی ترقی میں سستی روی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ سعودی عرب مکمل طور پر کاربند ہے کہ وہ بین الاقوامی کوششوں میں تعاون کرے اور ان کی سربراہی کرتے ہوئے ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیوں میں فاصلوں کو ختم کرے۔
انہوں نے ان فاصلوں کو کم کرنے میں سعودی عرب کی کوششوں کو اجاگر کیا اور مملکت میں خواتین کو ڈییجیٹل طریقے سے بااختیار بنانے کا حوالہ دیا۔
انھوں نے کہا کہ ’اس میدان میں خواتین کی شرکت کا تناسب تقریباً 35 فیصد ہے۔‘

اسی حوالے سے انھوں نے کہا کہ ’مسلسل دو برس سے عالمی سطح پر ڈیجیٹل مسابقت میں مملکت کا درجہ سب سے اوپر ہے۔‘
انھوں نے خاص پر یہ بات کہی کہ کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں ریسرچرز دنیا کے ایک فیصد بہترین ریسرچ کرنے والوں میں شامل ہیں جس سے مصنوعی ذہانت کے بارے میں مستقبل میں امید پیدا ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ’ ڈیٹا کو محفوظ بنانے کے ضابطوں اور قواعد میں مملکت نے ترقی کی ہے اور ٹیکنالجی تک مختلف کمیونیٹیوں کی شرکت یقینی بنانے کے لیے زبان کے ماڈلز میں ترقی ہوئی ہے۔‘
السواحہ کا کہنا تھا کہ ’اقوام میں ٹیکنالوجی کی رسائی اور مصنوعی ذہانت کے انفراسٹرکچر تک پہنچنے کے لیے آئندہ 10 برس انتہائی اہم ہیں۔‘