Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اردو ذریعہ تعلیم ٹھوس پیمانے پر روزگار سے مربوط نہیں ،پروفیسر ریاض علی خان

***امین انصاری ۔ جدہ***
اردو کی اہمیت او ر اسکے فروغ کے نعرے لگانے والے اگر سنجیدہ ہوجائیں تو یقینا اردو زبان تیزی سے پھلے  اور پھولے گی ۔جذباتی بیانات اور تقاریر سے تبدیلیاں نہیں آتیں ،ٹھوس اور عملی اقدامات کرنا ہونگے ۔ان خیالات کا اظہار حیدرآباد دکن سے آئے ہوئے انوارالعلوم ایوننگ کالج کے سابق پرنسپل  اکنامکس  پروفیسر محمد ریاض علی خان نے عبدالحق ہاشم کی رہائش گاہ پر  انکے اعزاز میں منعقدہ نشست میں کیا۔انہوں نے کہا کہ اردو  لشکری زبان ہے ۔دین اسلام کا بیشتر حصہ اردو زبان میں موجود ہے ۔  نسل نو تک اسکو منتقل کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔حیدرآباد دکن  میں مولانا آزادیونیورسٹی کا قیام  اردو کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کررہا ہے  ۔ یونیورسٹی کے ماتحت  اکنامکس کی کئی کتابوں کا اردو میں ترجمہ مجھ سمیت دیگر پروفیسر انجام دے رہے ہیں ۔ اکنامکس میںروزگار کے مواقع ہیں تاہم اردو  ذریعہ تعلیم  ٹھوس پیمانے پر روزگار سے مربوط نہیں ۔حکومتی اور فلاحی تنظیموں کی جانب سے اردو اسکول چلائے جارہے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ طلباء  ان اسکولوں میں داخلہ نہیں لیتے ۔ہماری قوم میں تعلیمی شعور کیلئے بیداری مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ ہم اردو کے فروغ میں اگر سنجیدہ ہیں تو پہلے اپنے گھر سے کام شروع کریں ۔ انگلش اور تلگو میڈیم مدارس میں اردو کو رائج کروانے کیلئے اردو کی تنظیمیں اقدامات کریں ۔ہم  چند مدارس میں اردو کے پیریڈرکھنے کیلئے اپنی جانب سے ٹیچر کاتقرر کرواکے انہیں ماہانہ تنخواہ دیتے ہیں ۔ اردو مدار س کے معیار تعلیم کو بلند کرنے کیلئے ہمیں ٹیچرز کے لئے ورکشاپ مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔ بستیوں میں سروے کرکے اردو تنظیمیں والدین کو تعلیم کی اہمیت سے واقفیت دلائیں تاکہ گورنمنٹ کے اقامتی اسکول میں بچے داخلہ لے سکیں ۔ آج تلنگانہ گورنمنٹ ایک بچے پر سالانہ ایک لاکھ خرچہ اٹھا رہی ہے لیکن افسوس مسلمان بچے اس سے فائدہ نہیں اٹھارہے ہیں ہمیں اس جانب کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اردو کی نئی بستیاں آباد ہورہی ہیں تاہم ہمیں اپنی جدوجہد کو تیز کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔ 
 

شیئر: