Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایک پیغام

***جاوید اقبال***
 گزشتہ ہفتے میامی سے ایک سفید ریش پاکستانی نے ایک ویب سائٹ پر چند معروف پاکستانی صحافیوں کو ایک پیغام دیا۔ سعی بسیار کے باوجود میں اس جہاں دیدہ انسان کے بیانیے سے دامن نہیں چھڑا سکا اور یہی مناسب جانا کہ اس پیغام کو من و عن اپنے قارئین کیلئے نقل کردوں۔ چند ایک مقامات پر میں نے حد سے بڑھی تلخ نوائی کو اعتدال کا لبادہ اوڑھا دیا ہے تو پیغام کا آغاز کرتے ہیں۔
’’میرے سب بھائیوں کو السلام علیکم! آج کل ایک بحث چل رہی ہے۔ جب سے عمران خان نے کہا ہے کہ 1960ء کا دور بہت اچھا تھا اور ملک ترقی کررہا تھا چند ایک صحافیوں کے معدے خراب ہوگئے ہیں۔ ارے اللہ کے بندو! کوئی شخص بتائے کہ جب پاکستان بنا تھا تو اس میں کیا تھا؟ ایوب خان کے دور میں مزدور اور کسان کتنے خوشحال ہوئے تھے اور ان صحافیوں کو اس کا علم نہیں۔ ایوب خان سے پہلے ایک ایکڑ میں ایک یا 2 من باجرہ اور گندم پیدا ہوتی تھی۔ ایوب نے زمینداروں کو سہولتیں دیں، ٹیوب ویل لگوائے، ٹریکٹر آئے، فصلیں لہلہانے لگیں۔ ایک ایکڑ میں سے 50,50 من گیہوں پیدا ہونے لگا۔ پی آئی اے اور پی آئی ڈی سی عروج پر آئے۔ پی آئی ڈی سی نے صنعتیں لگائیں۔ ڈیم بنے جن سے تمہارے آباء ٹھنڈک لیتے رہے، انہی منصوبوں کے صدقے تم اب تک پانی بھی پیتے آئے ہو۔ یہ فوج سے نفرت کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ غریبوں اور متوسط طبقے کے لوگوں کے بچے فوج میں جاتے ہیں۔ کیا مائیں اپنے بچوں کو پیسے کی خاطرفوج میں بھیجتی ہیں؟ پیسے تو تمہارے جیسے کرپٹ بہت کما لیتے ہیں۔ جن مائوں کے 20، 21 سالہ بچے قربان ہوتے ہیں وہ وطن کی محبت میں یہ سب کچھ کرتی ہیں۔ دھتکار ہے ان پر جو ملک کیلئے جانیں قربان کرنے والوں پر تنقید کرتے ہیں۔ تم لوگ اپنے بیٹوں کی شادیوں پر 4,4 کروڑ روپیہ لگادیتے ہو! کہاں سے آتی ہے یہ رقم؟ کیا کوئی تمہاری خاندانی جاگیر تھی؟ میں حامد میر سے سوال کرتا ہوں کہ تمہارے والد کی کونسی جائیداد تھی کہ اگلے دن اپنے بیٹے کی شادی پر کروڑوں روپے لگادیئے! میں تمہیں سیالکوٹ سے جانتا ہوں میں سیالکوٹ کا رہائشی ہوں، سیالکوٹ میں کم از کم 40 جرنیل ہیں جنہیں میں جانتا ہوں جن کے ریٹائرمنٹ کے بعد آج بھی حالات ہمارے جیسے ہیں اور تم جن سیاستدانوں کی باتیں کرتے ہو میں تمہیں ان کی جائیدادیں دکھاتا ہوں تمہاری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ ان لوگوں نے 1979ء کے بعد یہ ساری املاک بنائیں۔ فوج پر تنقید کرتے وقت کیوں تمہیں احساس نہیں ہوتا؟ جن کے بچے شہید ہوتے ہیں جب تمہاری یا وہ گوئی سنتے ہیں تو ان کے دلوں کو کتنی تکلیف پہنچتی ہے؟ وہ خون کے آنسو روتے ہیں اور ان کا جی چاہتا ہے کہ ان بے جا تنقید کرنے والوں کا خون پی جائیں۔ تم اسرائیل کو دیکھو! وہاں ہر خاندان اپنے بچے فوج میں بھیج رہا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ ہماری حکومت کو بھی یہ قانون منظور کرنا چاہیے کہ سیاست میں وہی آئے جس کا کم از کم ایک قریبی عزیز یا بیٹا فوج میں ہو۔ قابل احترام ہیں وہ لوگ جو رزق حلال کماتے اور کھاتے ہیں۔ میرے 50 اعزہ ہیں جو فوج سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ بمشکل روٹی کا گزارہ کررہے ہیں، نوکریاں کررہے ہیں۔ 30، 35 برس فوج کی ملازمت کرنے کے بعد بھی اپنے بال بچوں کو پالنے کے لیے ملازمتیں کرتے ہیں۔ تم نے سوائے ٹیلیویژن پر فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کے اور کیا کیا ہے؟ اگر پاک فو ج ہوتی تو ہم دیکھتے کہ کیسے یہ سارے یا وہ گو اسلام آباد میں بیٹھ کر عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ذرا سوچو! جتنی جائیداد اکیلے آصف علی زرداری کی ہے اتنی سارے جرنیلوں کی مجموعی طور پر بھی نہیں بنتی جتنی اکیلے محمد نواز شریف نے بنائی ہے اتنی میجر جنرلز اور دوسرے افسروں کی بھی نہیں۔ کتنے جرنیل ہیں جن کے والدین جاگیردار تھے؟ یہ عام مسکین شہریوں کے بچے ہیں۔ نوکری کے اختتام پر حکومت ان کو ایک قطعہ اراضی دیتی ہے۔ اسے فروخت کر کے اور جو کچھ عرصہ کار کے دوران پس انداز کیا ہوتا ہے اسے ملاکر بچوں کی شادیاں کرتے ہیں، ایک آدھ مکان بناتے ہیں اور زندگی گزارتے ہیں۔ میں ایک بات تم لوگوں پر واضح کردوں! ان سب لوگوں پر جو مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر پاک فوج کیخلاف باتیں کرتے ہیں۔ اگر ہمارا یہ شمشیرزن بازو نہ ہوتا تو آج ملک کے 20 ٹکڑے ہوگئے ہوتے اور ہاں میری بات سمجھنے کیلئے بہتر ہے کہ تم لوگ ایک ہفتے کے لیے سیاچن گلیشیئر جائو۔ وہاں سے اپنا بازو یا ایک ٹانگ کٹواکر واپس آئو پھر تمہیں احساس ہوگا کہ وطن کیلئے قربانی دینا ہی اصل زندگی ہے۔ لیکن تمہیں ان سب نصائح سے کیا؟ تم اور تمہارے رہنمائوں نے تو ملک سے باہر اربوں کی جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔ وطن پر ایک پیسہ نہیں صرف کررہے۔ ہم سے پوچھو! پردیس کیا ہوتا ہے وطن پر کوئی آنچ یا آفت آئے ہم تڑپ اٹھتے ہیں۔ میرے مخاطب وہ سب صحافی ہیں جنہوں نے پاک فوج پر تنقید اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے۔ میرا انہیں یہ برادرانہ اور مخلصانہ مشورہ ہے کہ اپنا ایک ایک بیٹا فوج میں بھرتی کرائیں۔ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی دولت وطن عزیز کے خیراتی اداروں میں تقسیم کردیں اور سیاچن پر کچھ وقت گزار آئیں۔ گھر کے دروازے رزق حلال کیلئے کھل جائیں گے! اور آصف زرداری صاحب! آپ بلاول کو بھی کچھ عرصے کیلئے پاک فوج میں وردی پوش بنوادیں۔ محمد نواز شریف صاحب! آپ کے دونوں صاحبزادے بدنمائی کی حد تک وزن بڑھا چکے ہیں! انہیں بھی ڈیڑھ 2 برس فوجی لنگر سے کھانا کھلادیں۔ یقین مانیں آپ سب کو وطن کے ساتھ ساتھ پاک فوج سے بھی پیار ہوجائے گا۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں