Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران بشار الاسد کیلئے ناگزیر؟

عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ شام کی خانہ جنگی میں ایران کی مداخلت ہی نے شامی نظام کو سقوط سے بچایا۔دمشق کے حکام سے ایران کو نکالنے کا مطالبہ کرتے وقت علاقائی پالیسی سازوں کو یہ حقیقت مد نظر رکھنی پڑیگی۔ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ایسا لگتا ہے کہ شامی حکومت کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ مستقبل میں اپنی حکومت کا تختہ الٹنے سے بچنے کیلئے ایرانیوں کیساتھ تعلقات ناگزیر ہیں۔اس تناظر میں ایرانیوں کا شام سے برضا و رغبت نکل جانا بعید از امکان ہے۔ ویسے بھی ایرانی شام میں غیر معمولی جانی اور مالی قربانیاں دے چکے ہیں۔ ایرانی شام کو اپنی خارجہ پالیسی کے کھیل کا اہم پتہ قرار دے چکے ہیں۔ایران کی خارجہ پالیسی سرحد پار اثر و نفوذ پھیلانے پر منحصر ہے۔
کیا ایران کو شام سے بے دخل کرنا غیر حقیقت پسندانہ شرط ہے؟
اس سوال کا جواب دینے کیلئے ہمیں تاریخ کے تناظر میں دونوں اتحادیوں کے تعلقات پر نظر ڈالنا ہوگی۔
شام کے سابق حکمراں حافظ الاسد نے ایرانی انقلاب کے قائدین کیساتھ تعلقات دو جہ سے بہت شروع میں استوار کرلئے تھے۔ پہلا سبب تو اسرائیل کے ساتھ طاقت میں توازن پیدا کرنے کا تھا جس نے لبنان میں شام کو چیلنج دینا شروع کردیا تھا۔ دوسرا سبب جو بیحد اہم ہے، عراق میں صدام حسین کے نظام کی ناکہ بندی سے متعلق تھا۔ صدام حسین کو حافظ الاسد اور آیت اللہ خمینی مشترکہ دشمن سمجھتے تھے۔ اگر شام اور ایران میں اتحاد نہ ہوتا تو صدام حسین نویں عشرے کے شروع میں سوویت یونین کے سقوط کے موقع پر شام پر لشکر کشی کرچکے ہوتے۔ وہ شام کے ساتھ وہی کچھ کرتے جو انہوں نے کویت کیساتھ کیا تھا۔ صدام حسین کا خیال تھا کہ شام ہی نے ایران کیساتھ جنگ کے دوران انکے خلاف سازش رچی تھی۔شام اور عراق میں البعث پارٹی کے حکمراں لبنان میں متعدد خفیہ جنگ کرچکے تھے۔ عراق شام پر اپنے خلاف بغاوت کی کوشش کا الزام عائد کئے ہوئے تھا۔ بغاو ت کی کوشش پر عراقی البعث پارٹی کے بہت سارے لیڈر تختہ دار پر لٹکا دیئے گئے تھے۔
لبنان میں شامی ایرانی مشترکہ عمل کے آغاز میں شامی افواج اور ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے درمیان متعدد معرکے ہوئے۔ بشار الاسد نے لبنان میں جھڑپوں کے اصول اپنے حق میں کرلئے اور انکا فیصلہ ہی وہاں فیصلہ کن بن گیا۔
ایران نے اپنی ملیشیاﺅں کی مدد سے لبنانیوں ، عربوں اور مغربی ممالک کے شہریو ںپر دسیوں دہشتگرد حملے کئے۔ یہ سارے حملے یا تو شامی حکام کے علم میں ہوئے یا کم از کم انہیں ان حملوں پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا تھا۔ یہ حملے 8ویں اور نویں عشروں میں کئے گئے۔ شام، دہشتگردوں کی راہداری او رسیاسی سرپرست بن گیا۔ دوسری جانب حافظ الاسد نے ایرانی سپاہ سے فائدہ اٹھایا اور علاقے میں اس کے اثر و نفوذ کو مضبوط بنایا۔ یرغمالیوں کو رہا کرانے کے سلسلے میں وہی ثالث بن گیا۔ ایران یا اسکی ملیشیاﺅں کے ساتھ مذاکرات کا راستہ شام سے ہوکر گزرنے لگا۔ سرد جنگ کے دوران شام ہی نے جھڑپوں میں ایران کا ساتھ دیا ۔ جغرافیائی نقشوں میں تبدیلی کی اجازت دی۔ لبنان محاذ آرائیوں کا کھلا میدان بن گیا۔ سوویت یونین کے سقوط اور حافظ الاسد کی موت کے بعد8ویں عشرے میں بشار الاسد محاذ کے دوسرے ساحل پر منتقل ہوگئے۔ انہوں نے خلیجی ممالک، اردن اور مغربی دنیا کیساتھ تعلقات اچھے کرلئے۔ ایران پھر بھی دمشق میں جھنڈے گاڑے رہا لیکن پس دیوار رہا۔یہی وجہ تھی کہ جنوبی لبنان سے اسرائیل کا انخلاءمطلوبہ اہداف پورے نہیں کرسکا۔ لبنان میں شامی جنرلوں نے سیاسی تفصیلات میں حد سے زیادہ دخل دیا۔ سنی، عیسائی ، لبنانی رہنماﺅں پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ یہ بات واضح ہوگئی کہ ایران کو ان سب سے خوب سے خوب فائدہ ہوتا رہا۔ 
اہم سوال یہ ہے کہ دمشق اور تہران کے باہمی تعلقات میں فائدہ کس کا زیادہ ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اگر شام ایران اتحاد کی مخالفت کا عنصر نہ ہوتا تو شامی انتفاضہ اتنا نہ بھڑکتا جبکہ خامنہ ای نے خصوصی تعلق اور اپنے اتحادی کو بچانے کیلئے شام میں فوجی مداخلت کی۔
ایران اور شام کے تعلقات ہی جنگ ختم کرانے کے سلسلے میں واحد رکاوٹ ہیں۔ شامی نظام کو تسلیم کرنے اور علاقائی و بین الاقوامی ممالک کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی راہ میں بھی یہی تعلقات مانع ہیں۔کسی بھی ملک کو اس بات سے دلچسپی نہیں کہ شام میں کس طرح کا نظام ِ حکومت قائم ہو کہ یہ ممالک شام میں مداخلت نہیں چاہتے۔ انہیں مشکل ایران سے ہے جو ابھی تک ان کےلئے خطرہ بنا ہوا ہے۔ اب شام کے سامنے نئی پیچیدہ صورتحال ہے۔ اسرائیل اپنے اطراف ایران کی فوجی موجودگی قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ وہ ان دنوں شام کے خلاف فوجی کارروائی دھڑا دھڑ کررہا ہے۔ ایران کی وجہ سے کئی عرب ممالک اسرائیل کی صف میں شامل ہوگئے ہیں۔ انکا مقصد ایران کو شام اور لبنان سے نکالنا ہے۔ ایران کے سامنے اہم تبدیلیوں کے خطرات ہیں۔ ہم ایران میں یومیہ بغاوت کی نزاکت کونظر انداز نہیں کرسکتے۔یہ صورتحال ایران کو اپنا خارجی اثر و نفوذ محدود کرنے پر مجبور کردیگی۔ اب شام کے سامنے دو ہی راستے ہیں۔ یا تو وہ ایران کے ساتھ آخری لمحے تک اتحاد برقرار رکھے یا اس کے اثر و نفوذ سے آزاد ہوجائے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں