سرکاری ملازمتوں میں خواتین کا 10 فیصد کوٹہ بھی پورا نہیں ہو رہا، وجوہات کیا ہیں؟
سرکاری ملازمتوں میں خواتین کا 10 فیصد کوٹہ بھی پورا نہیں ہو رہا، وجوہات کیا ہیں؟
اتوار 14 دسمبر 2025 5:28
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
پاکستان میں سرکاری ملازمین کی تعداد چھ لاکھ کے قریب ہے جن میں صرف 31 ہزار خواتین ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں اس وقت سرکاری ملازمین کی تعداد چھ لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے جن میں سے خواتین کی تعداد صرف 31 ہزار ہے جو کہ کل تعداد کا محض چھ فیصد بنتی ہے۔
اس حوالے سے حکام کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر خواتین کا کوٹہ 10 فیصد ہے جو براہ راست بھرتیوں پر لاگو ہوتا ہے۔
حکومتی کوششوں کے باوجود سرکاری ملازمتوں میں خواتین کا 10 فیصد کوٹہ پورا نہیں کیا جا سکتا جس کی بہت سی وجوہات سامنے آئی ہیں۔
وفاقی حکومت کے مطابق خواتین کا کوٹہ 1989 میں پانچ فیصد مقرر کیا گیا تھا جسے 2007 میں بڑھا کر 10 فیصد کر دیا گیا۔
یہ کوٹہ ہر اُس اسامی پر لاگو ہوتا ہے جو براہِ راست بھرتی کے ذریعے پُر ہوتی ہو، جبکہ وہ اسامیاں جو میرٹ، ترقی یا تبادلے کے ذریعے پُر کی جاتی ہیں یا جو قلیل مدتی یا مخصوص نوعیت کی ہوں، اُن پر یہ قانون نافذ نہیں ہوتا۔
اس کے باوجود جو نشستیں خواتین کے لیے مخصوص ہونے کے باوجود خالی رہ جائیں، انہیں آئندہ بھرتیوں تک محفوظ رکھا جاتا ہے تاکہ کوٹہ ضائع نہ ہو۔
قانون کے مطابق خواتین کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ میرٹ، صوبائی یا علاقائی کوٹے پر بھی مقابلے میں شریک ہوں، جس سے اُن کے سرکاری ملازمت میں آنے کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔
اس سب کے باوجود کئی وزارتوں میں خواتین کی موجودگی اب بھی مطلوبہ حد سے کم ہے اور یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کی وجہ سے حکومت نے عمل درآمد کا تازہ جائزہ شروع کیا ہے۔
اعدادوشمار واضح کرتے ہیں کہ کچھ وفاقی وزارتیں خواتین کی نمائندگی کے لحاظ سے مضبوط پوزیشن میں ہیں جبکہ کچھ ادارے حیران کن حد تک پیچھے رہ گئے ہیں۔
وزارت خارجہ میں خواتین کی موجودگی 40.96 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو نہ صرف وفاقی سطح پر سب سے زیادہ تناسب ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ سفارتی امور، بین الاقوامی تعلقات اور عالمی فورمز پر پاکستانی خواتین بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔
وزارت داخلہ اور اس کے ماتحت اداروں میں خواتین کی مجموعی نمائندگی محض 6.64 فیصد ہے (فائل فوٹو: نادرا)
وزارت تعلیم میں خواتین کا تناسب 22.54 فیصد ہے جبکہ وزارت آئی ٹی میں یہ تعداد 12.17 فیصد، وزارت صنعت و پیداوار میں 12.43 فیصد جبکہ وزارت موسمیاتی تبدیلی میں 10.87 فیصد ہے، جو 10 فیصد کوٹے کے ہدف کے قریب ہے۔
تاہم کئی وزارتیں ایسی ہیں جہاں خواتین کی موجودگی انتہائی کم ہے۔ وزارت بین الصوبائی رابطہ میں خواتین کی تعداد صرف 3.82 فیصد اور وزارت اقتصادی امور میں یہ شرح 7.03 فیصد ہے۔
وزارت داخلہ اور اس کے ماتحت اداروں میں خواتین کی مجموعی نمائندگی محض 6.64 فیصد ہے، حالانکہ یہ وزارت افرادی قوت کے اعتبار سے وفاق کے سب سے بڑے ڈھانچوں میں شمار ہوتی ہے۔
اس حوالے سے اسٹیبشلمنٹ ڈویژن کا موقف ہے کہ حکومت کی طرف سے سرکاری اداروں اور پالیسی سازی میں خواتین کو شامل کرنے کے لیے کئی ایک بنیادی تبدیلیاں متعارف کرائی گئی ہیں۔
’اب ہر بورڈ یا سلیکشن کمیٹی میں خاتون رکن کی لازمی شمولیت، تمام وزارتوں میں ڈے کیئر سینٹرز کا قیام اور خواتین ملازمین کی سہولت کے لیے مرد ملازمین کے لیے 30 روزہ پدری رُخصت کی پالیسی شامل ہے۔‘
اس کے علاوہ 2023 میں منعقد کیے گئے سی ایس ایس کے خصوصی امتحان میں 53.9 امیدوار خواتین تھیں جنہوں نے نمایاں کامیابی حاصل کی، یہ ایک اہم پیش رفت قرار دی جا رہی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر ورک پلیس کو زیادہ محفوظ بنایا جائے تو خواتین کی نمائندگی زیادہ ہو سکتی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
تاہم ماہرین اس اقدام کو بھی عارضی ریلیف قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مستقل بہتری اُسی وقت آئے گی جب دفاتر کا ماحول خواتین کے لیے محفوظ، سازگار اور ترقی کے مواقع سے بھرپور ہو۔
اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت نے تمام وزارتوں کا ایک جامع اور مشترکہ جائزہ شروع کر دیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ دہائیوں سے نافذ اس پالیسی کے باوجود خواتین کی نمائندگی مقررہ حد تک کیوں نہیں پہنچ سکی۔
اس مقصد کے لیے 3 نومبر 2025 کو ایک خصوصی میمورنڈم جاری کیا گیا جس کے تحت تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کو موجودہ عمل درآمد کی تفصیلات، کمی کی وجوہات اور مستقبل کی حکمتِ عملی پر مشتمل رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کا تازہ جائزہ اس حوالے سے فیصلہ کُن ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اس کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ آیا وزارتیں کوٹہ پورا نہ کرنے کی حقیقی وجوہات سامنے لانے میں سنجیدہ ہوں گی یا نہیں۔
اگر یہ عمل محض کاغذی کارروائی بن کر رہ گیا تو صورت حال تبدیل نہیں ہوگی، تاہم اگر بھرتی کا نظام تیز، ورک پلیس مزید محفوظ، اور سیٹوں کے ’فریز‘ ہونے کا سلسلہ کم کیا گیا تو آنے والے برسوں میں خواتین کی نمائندگی میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔