Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملائیشیا میں 6 روز

ملائیشیا میں 60 سے زیادہ سلفی تنظیمیں کام کر رہی ہیں، یہ سب لوگ اپنے اپنے انداز میں آزادانہ کام کرتے ہیں، کوئی ان کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالتا
عبدالمالک مجاہد۔ریاض

گزشتہ سے پیوستہ

شام ہونے میں دیر تھی کہ برادرم فرید احمد اپنی خوبصورت گاڑی لے کر ہوٹل کی لابی میں آگئے۔نماز مغرب کا وقت تھا ،ہم نے ہوٹل میں مسجد کو آباد کیا۔ یہ مسجد ایک بڑے کمرے پر مشتمل ہے۔ جس کے ایک حصہ میں پردہ ڈال کر خواتین کے لئے بھی نماز پڑھنے کا بندوبست کر دیا گیا ہے۔ دیار غیر میں مجھے اذان دینا بڑی پسند ہے۔ہو سکتا ہے اللہ رب العزت کو کوئی ادا پسند آجائے۔ میں نے بلند آواز سے اذان دی ،اقامت کہی اور جماعت کے لئے کھڑا ہوا تو ہوٹل کے ملازمین بھی آ گئے۔
    کوالالمپور میں میری اہلیہ کے رشتے میں ایک بھانجی بھی رہتی ہے۔ وہ اپنی 2چھوٹی بیٹیوں کے ساتھ ملنے کیلئے آ گئی۔ ہم سب فرید کی گاڑی میں سوار ہوئے۔ ہمارا رخ بار بی کیو ٹونائٹ کی طرف تھا۔ بھوک لگ رہی تھی اور مزیدار کھانا سامنے تھا اور وہ بھی تازہ گوشت۔ میرے شدید احتجاج کے باوجود فرید احمد کا کہنا تھا کہ آج وہی میزبان ہوگا۔ کھانا مقابلتاً سستا مگر نہایت مزیدار تھا۔ گزشتہ ماہ ہی ریاض میں بار بی کیو ٹونائٹ ریسٹورنٹ کی برانچ کا افتتاح ہوا ہے۔ اس کے جنرل منیجر ہمارے دوست سید ضیاء الحق صاحب ہیں۔ میںنے افتتاحی تقریب میں شرکت کی تھی بلاشبہ ریاض ریسٹورنٹ کا کھانا بھی مزیدار تھا مگرکوالالمپور کا گوشت زیادہ اچھا لگا۔ کھانے کے بعد میں نے ہوٹل منیجرسے ملاقات کی۔ ان کو اچھے کھانے کی مبارکباد پیش کی۔ پوچھا کہ گوشت مزیدار کیوں ہے؟ میں جواب ان کی زبان سے سننا چاہتا تھا۔ قارئین کرام! اس ملک میں بارشیں خاصی ہوتی ہیں۔ ہر طرف درخت گھاس اور چراگاہیں۔ آپ کو بعض مقامات پر حد نگاہ تک ہریالی نظر آئے گی یہی وجہ ہے کہ یہاں کے جانور تازہ گھاس چرتے ہیں جس سے ان کا گوشت مزیدار ہو جاتا ہے ۔فبای الا ء ربکما تکذبان۔
     ہم نے آج سے15سال پہلے یہاں دار السلام کی برانچ کھولی تھی۔ اس کے منیجر اب بوڑھے اور بیمار ہو چکے ہیں۔ اس برانچ کو بند کرنا بھی کوئی آسان نہیں۔ 2 دن تو وکیل صاحب کو تلاش کرتے رہے، پھرا سٹاک کو دیکھنا اور اس کے بارے میں غلام الٰہی سے لاحاصل مذاکرات ہوتے رہے۔ اب دیکھیں کہ وہ کب برانچ بند کرتے ہیں۔ کوالالمپور میں الخادم کے نام سے ایک سلفی تنظیم ہے جس کے سربراہ ہمارے دوست شیخ حسین ہیں۔ شیخ حسین چینی النسل اور مدینہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔ شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ میرے ان کے ساتھ گزشتہ20,18 سال سے تعلقات چلے آ رہے ہیں۔ وہ متعدد بار ریاض میں دارالسلام کے ہیڈآفس بھی تشریف لا چکے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کے پیس ٹی وی پر اکثر ان کے انگلش زبان میں لیکچرز ٹیلی کاسٹ ہوتے ہیں۔ غیر مسلموں کو مسلمان کرنے اور کتاب وسنت کی دعوت کے لیے ان کا کام بڑا قابل تعریف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک بڑا کام لیا ہے۔ ان کے ایک کارنامے کا ذکر کر کے آگے بڑھوں گا۔
     آج سے15 سال پرانی بات ہے ۔کوالالمپور ویسٹن ہوٹل میں شیر حسین  لی عمران نامی ایک شخص کو لے کر آئے۔ تعارف ہوا تو مجھے بتایا گیا کہ یہ پہلے بدھ مت کے ماننے والے تھے۔ کروڑ پتی متعدد کمپنیوں کے مالک ہیں۔ خوش قسمتی سے جب انھوں نے اسلام قبول کیا تو انہیں دارالسلام کی کتب پڑھنے کے لیے دی گئیں۔ بدھ مت مذہب کو چھوڑنے سے پہلے یہ ملین رنگٹ مندر کو دینے کا وعدہ کر چکے تھے۔ اس دوران شیخ حسین لی نے محنت کر ڈالی۔ اسے اسلام کی روشن تعلیمات کا علم ہو گیا۔ اسلامی کتب کا مطالعہ کیا اور پھر وہ دن آیا جب اس نے اسلام قبول کر لیا۔ وہ ہوٹل میں میرا شکریہ ادا کرنے آیا تھا کہ میں نے اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ کے ادارے کی شائع شدہ کتب پڑھی اور ان سے استفادہ کیا ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی ۔کچھ عرصہ گزرا۔ اس گروپ کا ریاض آنے کا پروگرام بن گیا۔ یہ ہمارے دفتر اور شاید گھر بھی آئے۔ عمران اکیلے بیٹھے مجھ سے باتیں کر رہے تھے۔ عمران نے پوچھا :مسٹر مجاہد تمہارے پاس کتنے ملازم ہیں۔اس زمانے میں ہمارے پاس کم و بیش100 ملازم تھے۔ میں نے بہت اکٹرکر100 مؤظفین کی بات کی۔ عمران کہنے لگے کہ میری تمام کمپنیوں کے ملازمین کی تعداد22 سے 23  ہزار بن ہی جاتی ہے۔ میں نے اس پر تحسین کا اظہار کیا۔ قارئین کرام !میں اس منظر کو کبھی نہیں بھولوں گا کہ عمران میرے دفتر میں بیٹھے مجھے کہنے لگے: مسٹر مجاہد میں آپ کو ایک نصیحت کروں ؟میں نے ہاں میں سر ہلایا۔ کہنے لگے کہ بہت زیادہ کاروبار نہ پھیلانا۔ جیسے جیسے آدمی کا کاروبار پھیلتا جاتا ہے وہ مسائل کی دلدل میں پھنستا جاتا ہے۔ کہنے لگے: اب میرے پاس اتنے زیادہ مؤظفین ہیں کہ ان کے مسائل کبھی ختم ہونے کو نہیں آتے۔ روزانہ سنتا ہوں کہ فلاں کا باپ اورفلاں کی والدہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی ۔آج فلاں ادارے کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ فلاں شعبہ کا ملازم اب ہمارے درمیان موجود نہیں،فلاں جگہ آگ لگ گئی ، اس طرح کے واقعات سن سن کر میں بے حس ہو گیا ہوں۔بری سے بری خبر سن کر بھی صرف اچھا یہ تو بڑی افسوس ناک خبر ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ کبھی مؤظفین  کے ساتھ جھگڑے، کبھی گورنمنٹ کے ساتھ لڑائی، کبھی ٹیکس کے مسائل… آدمی انہی میں الجھا رہتا ہے۔ہر وقت مادیت کے چکر میں ۔فلا ں شعبہ منافع میں ہے تو فلاں خسارے میں کیوں ہے۔ مجھے اس موقع پر علامہ اقبال رحمہ اللہ کا شعر یاد آرہا ہے:
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
    برادرم سلیمان صینی کا فون آ چکا تھا کہ آج رات کا کھانا آپ میرے ساتھ کھائیں گے۔ انہوں نے ایک مسلم چینی ریسٹورنٹ میں بکنگ بھی کروا رکھی تھی۔ چینی کھانے اور وہ بھی حلال فوڈ۔ بلاشبہ چائنیز کھانے بڑے مزے دار ہوتے ہیں۔ کھانے کے بعد وہ ہمیں سیرو تفریح کے لیے لے گئے۔ ہم نے 2بڑے میناروں کو دیکھا۔
    شیخ حسین لی کاکئی مرتبہ پیغام آ چکا تھا کہ میں آپ کو ڈرائیور بھجوا دوں گا۔ آپ ہمارے دفتر آئیں۔ اتوار کے روز ان کے ہاںدرس ہوتا ہے۔ برادررضی تشریف لے آئے۔ لوکیشن بھی آج کے دور کی زبردست ایجاد ہے۔ اس کی وجہ سے آپ بڑی آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ گھوم پھر سکتے ہیں۔ جدید ذرائع سے اب فاصلے کم ہو گئے ہیں۔ ’’الخادم‘‘ نے بھی گزشتہ 15,10 سالوں میں خاصی ترقی کی ہے۔ ان کا دفتر پہلے کے مقابلہ میں3,2 گنا بڑا ہو گیا ہے۔ خاصای بڑی پارکنگ لاٹ ہے۔ اس میں لیکچر ہال تربیت کے لیے جگہیں بنی ہوئی ہیں۔ ملائیشیا بہر حال ایک امیر ملک ہے۔ سڑکیں صاف اور کھلی ہے۔ مکانات کی ترتیب بڑی عمدہ ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ ملائیشیا کا بیشتر علاقہ اب بھی جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے۔ نئے علاقے بنتے ہیں تو اس کے لیے درختوں کو کاٹ کر راستے اور رہائش کے لیے جگہ بنائی جاتی ہے۔ ہم نے شیخ علی صاحب کے دفتر میں ہی بڑی مزیدار چائے پی۔ ہمارا رخ آڈیٹوریم کی طرف تھا جہاں د رس کا پروگرام تھا ۔خاصی تعداد میں خواتین و حضرات آچکے تھے۔ اپنے ہمراہ شیخ حسین صاحب کے لیے پروفیسر ساجد میرصاحب امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کی طرف سے شیلڈ لایا تھا۔ میں اور برادرم رضی آڈ یٹوریم میں پہنچے تو شیخ حسین لی نے میرا اور دارالسلام کا بھرپور تعارف کروایااور پھر اچانک مائیک میرے سپرد کر دیا ۔مجھے معلوم ہے کہ میں انگلش کا اچھاا سپیکر نہیں ہوں مگر اعتماد بہت بڑی نعمت ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ میرے مخاطب اردوسمجھنے والے نہیںمگر مجھے اورانہیں بھی معلوم ہے کہ میری مادری زبان انگلش نہیں، اردو ہے۔ اب اگر بدیسی زبان بولوں گا تو اس میں کوئی نہ کوئی غلطی تو ہو ہی جائیگی۔ اپنے اوپر اعتماد ہونا چاہیے۔ آپ اللہ کا نام لیں۔ اس سے دعا کیجئے اور بس شروع ہوجائیں اللہ کرم کرے گا۔    کچھ میرے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا ۔میں نے بسم اللہ پڑھی اللہ کی حمد و ثناء ،اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سلام کے بعد شیخ حسین لی کا شکریہ ادا کیا۔ مختصر سا مرکزی جمعیت اہل حدیث کا تعارف ،آپس میں رابطوں کی اہمیت بیان کی۔ کچھ دیگر باتیں چند منٹوں میں بات مکمل کی۔ ہال میں بیٹھے ہوئے بہت سے لوگ دارالسلام سے بخوبی واقف تھے۔ ان کے جذبات، دعائیں کچھ کلمات ،دل خوش ہو گیا۔ شیخ حسین لی اسٹیج پر تشریف لائے ۔میں نے ان کی خدمت میںشیلڈ پیش کی، انہوں نے راقم الحروف کو گفٹ پیش کیا۔
    میرا ایک اور جگہ پہلے سے پروگرام طے تھا اس لئے شیخ حسین لی سے اجازت لی اور اپنی کار کی طرف چل دئیے۔ ’’الخادم‘‘ کا دورہ بڑا مفید اور کامیاب رہا۔ میں نے اس ادارے میں بہت زیادہ وقت تو نہیں گزارا مگر مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ لوگ بڑے منظم انداز میں کام کر رہے ہیں۔
    ملائیشیا میں برادرم فرید احمد کے بقول کوئی 60 سے زیادہ سلفی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ یہ سب لوگ اپنے اپنے انداز میں آزادانہ کام کرتے ہیں۔ کوئی ان کے کام میں رکاوٹ نہیں ڈالتا ۔نہ کوئی ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتا ہے تاہم یہ ساری تنظیمیں سال میں ایک دو مرتبہ اکٹھی ہوتی ہیں۔ آپس میں ملتے ہیں ،اکٹھے کھانا کھاتے ہیں ایک دوسرے کے مسائل کو جانتے اور انہیں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں ان گروپس کی تفصیل میں نہ جاسکا تاہم ان کا ایک نام اور پہچان ان کے صدر پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔ ہمارے دوست فرید احمد اس گروپ کو منظم کرنے والے لوگوں میں سے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے ایک دن کی چھٹی طلب کرلی۔ ادھر میں بھی خاصا مصروف تھا۔ میرے خاص دوست رضی بھائی مسافر تھے۔ وہ واپس آ چکے تھے۔ انہوں نے مجھے پیغام بھجوا دیا تھا کہ میں اب آپ کے لئے فارغ ہوں ۔میرا گھر اور گاڑی حاضر ہے۔ انہوں نے بلاشبہ مہمان نوازی کا حق ادا کردیا۔
     ایک زمانے میں سسٹر صابریہ  کوالالمپور میں’’ سب اسلامک میڈیا‘‘ کے نام سے بک شاپ چلاتی تھیں۔ بڑی پڑھی لکھی اور مضبوط اعصاب کی مالک خاتون تھی۔ اس نے بہت کم عرصہ میںپبلشنگ کے کاروبار کو خوب ترقی دی۔ اس کے پاس اپنی کتاب بہت کم تھیںمگراس نے اپنے اردگرد مؤلفین و مترجمین ،آرٹسٹوں کا گروپ اکٹھا کر لیا۔ میں نے کوالالمپور کے سالانہ بک فئیر میں اس سے ملاقات کی تھی۔ اس نے مجھے اپنے گھر کھانے کی دعوت بھی دی تھی۔ بہت بڑا اور خوبصورت گھر جو اس نے بڑے شوق سے بنوایا تھا۔ اس نے مجھے اپنے گھر کا ایک ایک کونہ دکھایا۔ اس کا خاوند انجینئر تھا ۔چھوٹے چھوٹے بیٹے اور بیٹیاں ۔مجھے اس کے گھر کا خوبصورت لان کبھی نہیں بھولتا۔ وہ اپنی پہچان آئرن ویمن کے نام سے کرواتی تھیں۔ ایک دن مجھ سے کہنے لگی کہ دیکھو میرا خاوند بالکل یمنی لگتا ہے۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو مجھے بالکل حضرموت کا یمنی نظر آیا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میرے والدین 100سال پہلے حضرموت سے ہجرت کر کے اس ملک میں بس گئے تھے۔
     میری خواہش تھی کہ میں سسٹر صابریہ سے ضرور ملوں ۔ ایک زمانے میں وہ ہم سے کافی کتب منگواتی تھی۔میں نے فرید احمد سے پوچھا کہ سسٹر صابریہ کدھر ہے، اس سے ملنا ہے۔فرید قدر ے خاموش ہوگئے اور پھر کہنے لگے: کیا  آپ کو معلوم نہیں وہ تو فوت ہو چکی ہے(اناللہ وانا الیہ راجعون)۔ اسے تو وفات پائے دو تین سال گزر چکے ہیں۔ میری آنکھوں کے سامنے اس کی فیملی، اس کا خوبصورت گھر آگیا۔ ارے وہ آئرن ویمن اب ہمارے درمیان موجود نہیں۔ اس کی عمر50.40 کے درمیان ہوگی۔ سبحان اللہ موت کیسے کیسے قابل اور محنتی لوگوں کو ہم سے جدا کر دیتی ہے۔
     ملائیشیا میں میری آمد کا ایک اور مقصد مسلمانوں کے بہت بڑے لیڈر اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب سے ملاقات کرنا بھی تھا ۔ڈاکٹر ذاکر نائیک عصرحاضر میں بلاشبہ مسلمانوں میں بہت زیادہ مقبول شخصیت ہیں۔
     میری یہ خوش قسمتی ہے کہ میرے ان کے ساتھ گزشتہ22,20 سال سے تعلقات چلے آ رہے ہیں۔ ان سے امریکہ میں بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس زمانے میں وہ ابھی اتنے معروف نہ تھے۔ دار السلام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم نے ان کی کئی کتب شائع کیں۔ شروع شروع میں ممبئی میں دارالسلام کی کتب کو متعارف کروانے کا سہرا انہی کو جاتا ہے۔ اس زمانے میں ان کے ادارے IRF میں دارالسلام کی کتب فروخت ہوتی تھیں۔ اس وقت ابھی پیس ٹی وی کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ میری یہ خوش قسمتی ہے کہ وہ میرے گھر میں متعدد بار اور انکی اہلیہ بھی 2مرتبہ ہمارے گھر تشریف لائیں ۔ریاض آتے تو دارالسلام ضرور تشریف لاتے، گھنٹوں بیٹھتے۔ ہم پبلشنگ کے حوالے سے ان سے خوب تبادلہ خیال کرتے۔ میں نے ریاض سے محترم ڈاکٹر صاحب کو پیغام بھیجا تھا کہ میں کوالالمپور آ رہا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ جب آپ ملائیشیا آئیں تو میرے لوکل نمبر پر مجھے کال کر لیں۔ میری اپنی ترتیبات تھیں۔ اتوار کی رات انہوں نے میرے اعزاز میں عشائیہ رکھا ۔
    ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کی رہائش کوالالمپور کے مضافاتی علاقے پترا جایا میں ہے۔ پترا جایا میں ملائیشیا کے سرکاری دفاتر ہیں،پتراجایا بڑی خوبصورت اور دیکھنے کی جگہ ہے۔ یہاں پر مساجد اور قدرتی اور مصنوعی جھیلیں دیکھنے والی ہیں ۔ڈاکٹر صاحب نے تاکید کی کہ آپ نے عشاء کی نماز میرے گھر کے قریب والی مسجد میں ادا کرنا ہے۔ میرے ہوٹل سے وہاں پہنچنے تک کوئی پون گھنٹہ لگ گیا ہو گا۔ شہر بڑا ہی خوبصورت ہے۔ سڑک کے دونوں کنارے درخت ہیں۔ سامنے آپ کو سبزہ ہی سبزہ نظر آ رہا ہو، بارشیں خوب ہوتی ہوں تو پھر شہر نے خوبصورت تو ہونا ہی ہے۔
     میں اپنی اہلیہ کے ساتھ جب ان کے گھر پہنچا تو ڈاکٹر صاحب گھر کے نیچے ہمارے انتظار میں تھے۔ عشاء کا وقت ہوا چاہتا تھا۔ خواتین ان کے گھر چلی گئیں اور ہم مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔ عشاء کی اذان ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے مجھے امامت کے لئے مصلیٰ پر کھڑا کردیا۔ میرے کان میں کہا کہ آپ نے نماز کے بعد کچھ گفتگو بھی کرنا ہے۔ نماز کے بعد انھوں نے میرا اورد ارالسلام کا تعارف کروایا اور مائیک میرے حوالے کردیا۔ فرمانے لگے کہ ہمارے ایک دوست انکی تقریر کا انگلش میں ترجمہ کریں گے۔ میں نے اللہ کا نام لیا اور انگلش میں گفتگو شروع کردی۔ الحمدللہ ترجمہ کی ضرورت پیش نہ آئی ۔یہ ان کا بڑا پن ہے۔ کہنے لگے کہ مجھے اندازہ نہ تھا کہ آپ انگلش میں بھی اتنی اچھی گفتگو کر لیتے ہیں ۔خیر میں نے یہ باتیں اپنی نوجوان نسل کیلئے لکھی ہیں تاکہ اپنے اندر اعتمادپیدا کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں، فقروں کو ترتیب دیں اور بولنا شروع کردیں۔ الفاظ خود بخود آتے چلے جائیں گے۔ اپنے آپ کو کبھی کمتر نہ سمجھیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لوگ آپ کو شیکسپیر نہیں جانیں گے۔ نہ وہ آپ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ اے کلاس انگلش بولیں گے۔
     میں یہ بات اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھ رہا ہوں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب نے عشائیہ میں متعدد لوگوں کو بلوا رکھا تھا۔احباب جمع ہو جائیںتو کھانے کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے ،کھانا بڑا مزیدار تھا۔ میں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے چہرے پر سعادت ،اطمینان دیکھا۔ اس عظیم انسان پر اسلام دشمن قوتوں نے خوامخواہ دہشت گرد ہونے کا الزام عائد کردیا ہے۔ میں نے انکے کتنے ہی لیکچر سنے ہیں۔ وہ تو پوری دنیا میں امن کے سفیر ہیں، جس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو ہدایت نصیب ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے پناہ حافظہ عطاکیا ہے۔ انہیں اسلامی کتب کے علاوہ دیگر مذاہب کی کتب پر بھی عبور حاصل ہے۔ ان کو کتابوں سے کتنے ہی واقعات زبانی یاد ہیں۔ وہ تقریر کے دوران ان کی کتب کے حوالے دیتے ہیں۔ وہ لاکھوں مسلم نوجوانوں کی دلوں کی دھڑکن ہیں۔ ان پر مشکل وقت آیا مگر کیا مجال اس مرد درویش کے چہرے پر مایوسی ہو ،ہمارے ساتھ ہنستے مسکراتے رہے۔ ان کا ایک جملہ میں اکثر مقامات پر ساتھیوں کے ساتھ شیئر کرتا ہوں کہ جب تک میرے رب نے چاہا ہم دین کی خدمت کرتے رہے اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے۔
     قارئین کرام دعاۃ پر مدوجزر آتے رہتے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہمارے آبائو اجداد کی تاریخ کو پڑھ لیں۔ اسلام کی داستان قربانیوں اور آزمائشوں سے بھری ہیں۔ اہل حق ہمیشہ ان مشکلات اور پریشانیوں کے بعد کندن بن کر نکلتے ہیں۔پیس ٹی وی ابھی تک کام کر رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاں پاکستان سے تعلق رکھنے والے منظور احمد اور ان کے دوست سے بھی ملاقات ہو گئی۔ رات گئے ہم ڈاکٹر صاحب کے مہمان خانے میں بیٹھے تبادلہ خیال کرتے رہے۔
(جاری ہے)
مزید پڑھیں:- - - - -میت کو غسل دینے والا، نومولود کی طرح گناہوں سے پاک

شیئر: