Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرینکا گاندھی کی آمد

معصوم مرادآبادی٭٭٭***
کانگریس صدر راہول گاندھی نے اپنی بہن پرینکا گاندھی کو سرگرم سیاست کے میدان میں اتارکر ایک بہت بڑا داؤ کھیلا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیاگیا ہے جب ملک میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے اوربی جے پی اور کانگریس کے درمیان زبردست مقابلہ آرائی متوقع ہے حالانکہ پرینکا گاندھی کو ابھی صرف مشرقی یوپی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ، جہاں وہ جنرل سکریٹری انچارج مقرر کی گئی ہیں لیکن اس فیصلے کا اثر بہت دور تک نظر آرہا ہے۔ پرینکا گاندھی کے میدان میں اترنے سے جہاں ایک طرف یوپی کانگریس میں نئی جان نظر آرہی ہے تو وہیں دوسری طرف کانگریس کے مخالفین کی صفوں میں گھبراہٹ اور بے چینی صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔ بی جے پی نے حسب عادت اس فیصلے کو کانگریس میں خاندانی وراثت کو فروغ دینے والا فیصلہ قرار دیا ہے اور کانگریس کو ایک خاندان کی پارٹی قرار دینے کے اپنے پچھلے بیانات کو شدت کے ساتھ دہرایا ہے۔ بی جے پی لیڈروں کا ردعمل دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اندر اندر پریشانی محسوس کررہے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پرینکا گاندھی عام سیاست دانوں کے برعکس ایک مختلف شخصیت کی مالک ہیں۔ وہ جس انداز میں اعتماد کے ساتھ اور ٹھہرکر بات کرتی ہیں، اس کا عوام پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ ان کی شخصیت میں کشش اور دل آویزی پائی جاتی ہے۔ ہرچند کہ سیاست کا میدان ان کیلئے کوئی نیا نہیں ہے اور نہ ہی وہ سیاست کے راز ونیاز سے ناواقف ہیں۔ وہ ماضی میں رائے بریلی اور امیٹھی جیسے کانگریس کے روایتی حلقوں میں اپنی والدہ اور بھائی کیلئے انتخابی مہم کی کمان سنبھالتی رہی ہیں اور وہاں انہوں نے اپنی بہترین کارکردگی سے ووٹروں کو خاصا متاثر بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریسی کارکنان طویل عرصے سے ان کے سرگرم سیاست میں حصہ لینے کے متمنی رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی مرتبہ پوسٹر اور بینر بھی شائع کئے گئے ہیں۔ لیکن پرینکا نے کبھی پارٹی کا کوئی عہدہ قبول نہیں کیا اور وہ ساحل پر رہ کر سمندر کا نظارہ کرتی رہیں۔ سیاسی مبصرین کو ان کی شخصیت میں سب سے بڑا عکس ان کی دادی آنجہانی وزیراعظم اندراگاندھی کا نظر آتا ہے اور وہ انہی کے انداز میں گفتگو بھی کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جہاں جاتی ہیں لوگ انہیں ٹھہر کر اور سنبھل کر سنتے ہیں۔ وہ عام سیاست دانوں کی طرح منہ پھٹ اور زبان دراز نہیں بلکہ سلیقے سے بات کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ وہ اپنے مخاطب کو انداز گفتگو کے علاوہ اپنی دلیلوں سے بھی متاثر کرتی ہیں۔ بی جے پی کا کہنا ہے کہ کانگریس ایک خاندان کی پارٹی ہے اور وہ سب کچھ اسی خاندان کے فروغ کیلئے کرتی ہے۔ پنڈت جواہر لال نہرو ، اندراگاندھی، راجیوگاندھی، سونیاگاندھی اورراہول گاندھی کے بعد اب پرینکا گاندھی نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اس پارٹی کی سیاست ایک ہی خاندان کے اردگرد گھومتی ہے۔ دراصل کانگریس کی مجبوری یہ ہے کہ اس کے لیڈران اور کارکنان نہرو ،گاندھی خاندان کے نام پر ہی اکٹھا رہ سکتے ہیں کیونکہ اس پارٹی میں کسی اور کی لیڈر شپ قبول نہیں کی جاتی۔ درمیان میں جب جب پارٹی کی قیادت اس خاندان کے علاوہ کسی اور کو ملی ہے تو پارٹی میں انتشار پیدا ہوا ہے۔ اس اعتبار سے نہرو، گاندھی خاندان جہاں کانگریس کی سب سے بڑی کمزوری ہے تو وہیں سب سے بڑی طاقت بھی ہے۔ سرگرم سیاست میں پرینکا کی آمد سے بی جے پی کی پریشانی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ حالیہ عرصے میں اس کی گرفت اقتدار پر خاصی کمزور ہوئی ہے۔ راجستھان ، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش جیسے صوبوں میں کانگریس کی فتح نے سیاسی منظرنامے کو تبدیل کردیا ہے۔ دوسری طرف راہول گاندھی نے رافیل طیاروں کی خریداری میں بدعنوانی کا مسئلہ اس نہج تک پہنچادیا ہے کہ بی جے پی دفاعی پوزیشن میں آگئی ہے اور وہ اس معاملے میں اپنی صفائی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کی الٹی گنتی شروع ہوگئی ہے۔ بی جے پی کے اقتدار والے صوبے اترپردیش میں پرینکا گاندھی کی سرگرم موجودگی حکمراں طبقے کے لئے بڑا درد سر ثابت ہوسکتی ہے۔ پرینکا گاندھی کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ خواتین میں خاصی مقبول ہیں۔ بی جے پی راج میں چونکہ خواتین کا وسیع پیمانے پر استحصال ہو اہے۔ اس اعتبار سے پرینکا خواتین کی بھی پہلی پسند ثابت ہوسکتی ہیں جو ملک کی نصف آبادی کی نمائندگی کرتی ہیں۔ 
پرینکاگاندھی کو کانگریس کا جنرل سکریٹری ایک ایسے موقع پر بنایاگیا ہے جب ملک میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے اور پارٹی پوری جدوجہد کے ساتھ چناؤ کے میدان میں اترنے کی تیاری کررہی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ راہول گاندھی نے کانگریس کی صدارت سنبھالنے کے بعد اپنی کارکردگی سے یہ ثابت کردکھایا ہے کہ وہ سیاسی بلوغت کو پہنچ چکے ہیں اور وہ موجودہ حکمرانوں کا مقابلہ بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن پرینکا گاندھی کے ان کے ساتھ کھڑے ہونے سے ان کی طاقت ایک اور ایک گیارہ کی طرح بڑھ جائے گی۔دیکھاجائے تو پرینکا گاندھی ملک کے ایک صوبے کے آدھے حصے میں پارٹی کے اندر نئی جان پھونکنے کا کام کریں گی۔ اترپردیش کے بارے میں سبھی لوگ جانتے ہیں کہ 20کروڑ سے زیادہ آبادی والے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں آدھا صوبہ بھی کسی ایک بڑے ملک سے کم نہیں ہے۔ پرینکا گاندھی کو مشرقی اترپردیش کی ذمہ داری ایک ایسے مرحلے میں سونپی گئی ہے جب ایس پی/ بی ایس پی اتحاد کا حصہ بننے کی کانگریس کی امیدوں پر پانی پھرگیا ہے کیونکہ ان دونوں ہی پارٹیوں نے کانگریس کو ساتھ لینے سے انکار کردیاہے۔ اس فیصلے سے کانگریسی کارکنان میں مایوسی کی جو لہر پیدا ہوئی تھی وہ پرینکا گاندھی کے میدان میں اترنے سے نئے جوش وخروش میں تبدیل ہوگئی ہے۔
 

شیئر: