Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آہ ! میرے دوست

***محمد مبشر انوار***
تحریک پاکستان میں بانی پاکستان کے ہمراہ جہاں بہت سے دوسرے رہنما تھے وہیں جڑانوالہ سے میاں عبدالباری مرحوم تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے ہراول دستے میں شامل تھے اور دیگرکئی لیگی رہنماؤں کی مانند قائد اعظم کے انتہائی معتمد ساتھیوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ میاں عبدالباری کی سیاست کا لب لباب ایک شائستہ اورسلجھے ہوئے سیاستدان کا رہا،جس کا مقصد پاکستان اور پاکستانیوں کی بھلائی تھا،بالخصوص مہاجرین کی آباد کاری میں میاں عبدالباری کا کردار انتہائی مثبت رہا۔ بعد ازاں ان کے 2صاحبزادے ،ان کی سیاسی میراث کو سنبھالے رہے۔میجر معین باری ایوانوںمیں رہے تو میاں غلام دستگیر باری جڑانوالہ میں حلقے کی سیاست میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ پیرانہ سالی کے باوجود میاں غلام دستگیر باری کے میل ملاپ اور عوامی رابطے میں کوئی کمی نہ آئی بلکہ پاکستان کے سیاسی حالات پر مسلسل کڑھتے رہے کہ یہ وہ پاکستان تو نہیں ،جس کیلئے ان کے بزرگوں نے جدوجہد کی اور قربانیاں دیں تھی،بہر کیف وقت گزرتا رہا اور نئی نئی سیاسی جماعتیں بھی بنتی رہیں مگر میاں غلام دستگیر باری اور ان کا خاندان مسلم لیگ کی سیاست کرتا رہا تاآنکہ میاں نواز شریف اپنے کارکنان کو اندھیرے میں رکھ کر ،بیرون ملک سدھار گئے۔ اس نازک موقع پر میاں غلام دستگیر خاندان کو اپنی سیاسی سوچ کا رخ بدلنا پڑا۔ انہوں نے مسلم لیگ ق میں شمولیت اختیار کر لی۔میاں غلام دستگیر کے 2 صاحبزادگان میں میاں غلام قادر باری اور میاں غلام حیدر باری میں قرعہ فال چھوٹے صاحبزادے کے نام نکلا اور وہ 2002کے انتخابات میںصوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جبکہ میاں غلام قادر باری کی شخصیت انتہائی مختلف اور ایک مسیحا کی سی رہی،جو بیک وقت حلقے میں اپنے اسلاف کی سیاست کا امین تھا تو دوسری طرف وہ بھوک و افلاس کی ماری عوام کے دکھوں پر مرہم رکھنے میں مصروف عمل تھا۔ انتہائی متحرک اور درد دل رکھنے والا میاں غلام قادر باری،اب اس دنیا میں نہیں رہا،انا للہ وانا الیہ راجعون…اللہ کریم اس کی مغفرت فرمائے اور اسے کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے،آمین۔
معاشی بدحالی سے دوچار بد نصیب قوم کے نوجوان آخری چارہ کارکے طور پر یا پیٹ کا ایندھن بجھانے کیلئے یا کس طرح کے حالات کے دوچار،ہاتھوں میں ہتھیار اٹھائے اس وطن کے گلی کوچوں میں برسرپیکار ،امن و امان کی صورتحال کو برباد کئے ہوئے ہیں۔ 25دسمبر کی علی الصباح جڑانوالہ روڈ پر میاں غلام قادر باری اکیلا لاہور کی جانب محو سفر تھا،یہ کوئی اس کا پہلا سفر تو نہ تھا، مگر ہاں! یہ اس کا آخری سفر ضرور ثابت ہوا،کہ راستے میںاسے روکا گیا ، فائرنگ کی آوازیں سنائی دیں،مگر اس نے نکل جانا مناسب سمجھامگر اجل سے نکل نہ پایا۔ موقع پر ہی جان کی امانت اَمین کے سپرد کرکے سرخرو ہو گیا۔وکالت کے کچھ دنوں کا ساتھ ،ایک لمبی اور مضبوط رفاقت میں بدل چکا تھا،اس رفاقت میں فاصلے بھی حائل نہ ہو سکے۔ مسلسل رابطہ رہا۔ چھٹی کے دنوں میں،مَیں اورمیاں غلام قادر باری اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر کئی کئی گھنٹے بیٹھے حالات حاضرہ اور تاریخ پر گفتگو کرتے رہتے،کھانے یا چائے کا دور چلتا رہتااور سعدیہ بھابھی بھی ہماری گفتگو میں شریک رہتی۔ کچھ عرصہ وکالت کرنے کے بعدمیاں غلام قادر باری اپنی فطرت کے عین مطابق معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار ادا کرنے کی جستجو میںنظام عدل سے بطور اسسٹنٹ پراسیکیوٹر جنرل وابستہ ہو گیاجہاں اسے نظام عدل میں بہتری لانے کیلئے ریسرچ اور تجاویز دینے کا کام سونپا گیا۔ بہتری سے متعلق اپنی فطری وابستگی کے باعث میاں غلام قادر باری اس کام میں ڈوب سا گیا۔ اپنی تمام تر توانائیاں اس میں صرف کر دیں۔ یہ اس کی اپنے کام سے لگن تھی ،جو اسے مختلف ممالک (تقریباً 15ممالک) میں لے گئی،جہاں اس نے نہ صرف نظام عدل کو بغور دیکھا بلکہ گہرائی میں پاکستان کے نظام عدل سے موازنہ کر کے اپنی سفارشات مرتب کی۔ لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس سید منصور علی شاہ صاحب کی خدمت میں پیش کی۔
یہ اس کی شخصیت کا ایک رخ تھا تو دوسری طرف وہ مفلوک الحال عوام کی بہتری کے لئے بھی کچھ کرنا چاہتاتھا تا کہ وطن کی مٹی کا قرض اتار سکے مگر اپنی گوناگوں مصروفیات سے فرصت نکالنا اس کے لئے محال تھا۔ یہ صورتحال دیکھ کر اس کی شریک حیات(جو خود بھی سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں)نے آگے بڑھ کر اس کا دست و بازو بننے کا فیصلہ کیا۔ ایک سے بھلے دو کی مانند،میاں غلام قادر باری کے لئے وہ نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی اور سماجی بھلائی کے کاموں کا بیڑہ انہوں نے اٹھا لیا مگر جہاں ضرورت پڑتی،میاں غلام قادر باری ان کے ہمراہ ہوتے۔ ابتدائی طور پر انہوں نے تعلیم کو چنا ۔اس وقت چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے اور نئی روشنی ا سکول کا نظام متعارف کروا چکے تھے۔دونوں میاں بیوی نے اس سہولت کو غنیمت جانا اور اپنے مقصد میں جت گئے۔ نئی روشنی ا سکول منصوبوں کے دوران میرا بھی پاکستان جانا ہوا اور حقیقت یہ ہے کہ دونوں میاں بیوی کے ساتھ چکوال کا قصد کیا،جو میری زندگی کے چند بہترین سفروں میں سے ایک تھااور اس کی یادیں آج بھی دل و دماغ میں تازہ ہیں۔
2008میں میاں شہباز شریف کی حکومت نے اس منصوبے کو چند تعلیم بیچنے والے اجارہ داروں کے دباؤ پر یا ذاتی عناد کی بنیاد پر ختم کرکے جہالت ختم کرنے کی روشنی کو گل کر دیا لیکن میاں غلام قادر باری اور اس قبیل کے دوسریسر پھروں کے ارادوں پر بند باندھنے سے قاصر رہے۔ مشکلات میں اولوالعزم ارادے ترک نہیں کیا کرتے بلکہ ان کا راستہ ،ان کی سمت بدل جاتی ہے اور جو سکون ان کے قلوب و اذہان کو خدمت خلق سے میسر آتا ہے،اسے ترک نہیں کرتے۔میاں غلام قادر باری کی سمت بھی تبدیل ہوئی اور تعلیم سے ہٹ کر اس نے اپنا مقصد خواتین کی بہبود کی جانب موڑ دیا ،جس میں پھر اس کی شریک حیات اس کے ہمقدم تھی۔الباری فاؤنڈیشن کے قیام نے دیہی خواتین کی بہبود میں مثالی کام شروع کر دیا،ان کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ان کے معاشی حالات پر ،ان کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ وسائل فراہم کرنا ،الباری فاؤنڈیشن کا مقصد ٹھہرا۔ اس مقصد کیلئے اس نے خواتین میں یہ شعور اجاگر کرنا شروع کر دیا کہ کس طرح وہ چھوٹے پیمانے پر اپنا کاروبار شروع کر سکتی ہیں،پولٹری سے لے کر لائیو اسٹاک سے کس طرح بہتر پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ انتہائی بے کس و نادار خاندانوں کو 5 مرغیوں سے ترغیب دے کر ،کس طرح اس میں وسعت لائی جا سکتی ہے،کے پروگرام پر عمل پیرا ہوا۔جس کی تکنیکی تفصیل اس کالم کی متحمل نہیں ہو سکتی تاہم اتنا ضرور ہے کہ اپنی تحقیق اس نے لائیوا سٹاک کے وزیر دریشک تک بھی پہنچائی،جس کا اللہ جانے کیا حشر ہوامگر درویش صفت غلام قادر باری ،اپنے حصے کی شمع جلاتا رہا تا آنکہ ایک اندھی گولی اس سے نہ صرف اس کے بلکہ اُن خاندانوں کے جن کے لئے وہ برسر پیکار تھا،کے خواب چھین لے گئی۔آہ!! میرے دوست۔۔۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں