Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری، وفاقی کابینہ کا اجلاس آج

وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں وفاقی کابینہ کا اجلاس کچھ دیر بعد ہوگا جس میں 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری دی جائے گی۔
سنیچر کو ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت وزیراعظم شہباز شریف باکو سے ویڈیو لنک کے ذریعے کریں گے۔
کابینہ کا اجلاس گذشتہ روز جمعے کو ملتوی کر دیا گیا اور حکومت کی جانب سے یہ وضاحت سامنے آئی تھی کہ آئینی ترمیم پر اتحادیوں کے ساتھ مکمل ڈیڈلاک تو نہیں، البتہ دو سے تین نکات ایسے ہیں جن پر تاحال اتفاقِ رائے ہونا باقی ہے۔
رواں ماہ تین نومبر کو بلاول نے اپنے ٹویٹ میں اعلان کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ ن کا ایک وفد صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کر چکا ہے اور پیپلز پارٹی سے 27ویں ترمیم کی منظوری کے لیے حمایت طلب کی گئی ہے۔
بلاول بھٹو کے اعلان کے بعد سے نہ صرف اس معاملے پر بحث زور  پکڑ گئی ہے بلکہ مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی اس حوالے سے ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بار 26ویں ترمیم کے برعکس، نمبر گیم کافی حد تک حکومت کے حق میں ہے۔
ترمیم کے مجوزہ نکات میں آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی، ججز کے ٹرانسفر کا طریقہ کار، نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) میں صوبائی حصے کی ضمانت ختم کرنا، آرٹیکل 243 میں تبدیلی، تعلیم اور فیملی پلاننگ کو وفاق کے دائرہ کار میں واپس لانا اور الیکشن کمیشن میں تقرریوں سے متعلق ڈیڈ لاک ختم کرنا شامل ہیں۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ ترمیم ’حکومتی قیادت میں‘ آ رہی ہے، نہ کہ کہیں سے ’پیراشوٹ‘ کے ذریعے مسلط کی جا رہی ہے۔
گذشتہ روز جمعے کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ’ان کی جماعت مجوزہ 27ویں ترمیم کے تحت آئینی عدالت کے قیام اور آرٹیکل 243 میں ترمیم کی حمایت کرے گی۔‘
کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ (سی ای سی) کے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس میں بلاول بھٹو زرداری نے مجوزہ 27 ویں ترمیم پر پارٹی موقف بیان کیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اصولی طور پر پیپلز پارٹی آئینی عدالت کے قیام کے حق میں ہے جبکہ ججوں کے تبادلے کے معاملے پر ہم نے اپنی تجاویز تیار کی ہیں۔‘
’ججوں کے تقرر اور تبادلوں پر حکومت نے یہ تجویز دی ہے کہ اس کا فیصلہ پارلیمانی کمیٹی کرے، ہماری تجویز ہے کہ جوڈیشل کمیشن میں دونوں متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کی مشاورت سے تبادلے کا فیصلہ کیا جائے۔‘
دوسری طرف اپوزیشن، خصوصاً پاکستان تحریکِ انصاف، اسے ’فوجی طاقت بڑھانے کی کوشش‘ قرار دے رہی ہے۔

 

شیئر: