Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہم قوم کب بنیں گے؟

***صلاح الدین حیدر***
’’یوں دی ہمیں آزادی کہ دُنیا ہوئی حیران۔ اے قائداعظمؒ تیرا احسان ہے احسان‘‘ ہم سب یہ نغمہ تو بڑے شوق سے گنگناتے ہیں لیکن کاش اس کا مطلب اور اس میں چھپے پیغام کو بھی سمجھ لیتے۔ ہم نے قائدؒ کے زرّین اصولوں کو یکسر نظرانداز کردیا بلکہ اب تو یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے کہ بانی پاکستان قائداعظمؒ کو جب وہ شدید بیماری کی حالت میں زیارت سے کراچی لوٹے تو ایئرپورٹ پر اُنہیں پروٹوکول تک نہیں دیا گیا۔ سارا الزام، اُس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان کی اہلیہ کے سر آتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے شوہر تک کو قائدؒ کی واپسی سے لاعلم رکھا۔ ایئرپورٹ پر نیوی کی ایک ٹوٹی پھوٹی ایمبولینس روانہ کردی گئی جو راستے میں پٹرول ختم ہوجانے کی وجہ سے رُک گئی اور فاطمہ جناح نے جب ملٹری سیکریٹری کو دوسری ایمبولینس کیلئے کہا تو بہت دیر ہوچکی تھی۔ میرا قائدؒ دُنیا کو چھوڑ کر اﷲ کو پیارا ہوچکا تھا۔
یہی وہ قائدؒ تھا جس نے اپنی بیماری انگریزوں سے چھپا کر رکھی تھی اس لیے کہ اگر انگریزوں کو پتا چل جاتا جناح صاحب ٹی بی جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہیں تو وہ ہند کی تقسیم میں تاخیر کردیتے اور اُن کی موت کا انتظار کرتے۔ ہمارے قائدؒ نے تو مسلمانوں کے نئے وطن کیلئے جان کی قربانی دے دی اور اُن کے ساتھ ایسا بہیمانہ سلوک ہو، شرم کی بات ہے۔ قائدؒ اصولوں کے پکے تھے، یقین محکم، اتحاد اور نظم و ضبط کو ہم نے کہیں دُور کسی گوشے میں رکھ دیا ہے اور آج ہم ملک کی بوٹیاں نوچنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ رشوت ستانی عام ہے۔ اﷲ بھلا کرے عدلیہ اور فوج کا جس نے بدعنوانیوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا بیڑہ اُٹھایا ہوا ہے۔ٹریفک کا نظم و ضبط دیکھ لیں، بے ہنگم، کوئی اِدھر سے آرہا ہے، کوئی اُدھر سے، گاڑی چلانا مشکل ہوجاتا ہے، خود کو بھی بچائیں، دوسروں کو بھی۔ پولیس کی کوئی عزت نہیں، لوگ ڈانٹ دیتے ہیں، بے چارہ کانسٹیبل جھڑکی سن کر پیچ و تاب تو بہت کھاتا ہوگا لیکن یا تو کچھ تھوڑا بہت بول دیتا ہے، ورنہ عافیت خاموش رہنے میں ہی سمجھتا ہے، کیونکہ اس ملک، اس معاشرے میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اپنا جرم تسلیم ہی نہیں کرتے، بلکہ اگر تھوڑا بہت بھی اثررسوخ ہو تو کانسٹیبل کی مصیبت آجاتی ہے۔ اقربا پروری عام ہے۔ پولیس نے کسی جرم میں پکڑا تو یا تو خود گولی کھالی، یا پھر کوئی ایم این اے، ایم پی اے، وزیر یا اعلیٰ افسر کا فون آجاتا ہے کہ چھوڑ دیں اُسے، ہمارا آدمی ہے۔ 
ایسے میں کون سا نظام کامیاب ہوگا، انصاف کون دے گا؟ حکومتی ادارے میں کسی کام سے جائیں، جائز کام بھی ہو تو بھی چائے پانی کا انتظام کرکے جائیں، اب تو لوگ منہ کھول کر پیسے کا تقاضا کرتے ہیں بے شرمی سے۔ شرم نام کی کوئی چیز باقی ہی نہیں بچی۔ موت کے بعد بھی پیسہ چلتا ہے، میونسپلٹی کی طرف سے قبرستان میں تدفین مفت ہے لیکن دفنانے والا قبروں کی قیمت مانگے بغیر مُردے کو دفن کی اجازت دینے سے انکاری ہے۔ عجب حال ہے قائد تیرے دیس کا، کس سے شکایت کریں، کس سے شکوہ کریں؟ ہر بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ 
ساہیوال واقعے پر پوری دُنیا عمران خان کیخلاف سراپا احتجاج ہے، لیکن مخالفت کرنیوالے سانحۂ ماڈل ٹائون کو بھول گئے جہاں 2016 میں 16 عورتیں، مرد، بچّے شہید کردیئے گئے تھے، آج یہ سب باتیں شہباز شریف کو یاد نہیں۔ وہ قومی اسمبلی میں کروفر سے تقاریر تو کرتے ہیں، وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کے استعفے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں، لیکن خود اپنا کیا دھرا اُنہیں یاد نہیں آتا۔ پولیس رپورٹ میں اُن کا نام درج ہے کہ ماڈل ٹائون منہاج القرآن کے لوگوں پر گولیاں برسائی گئیں لیکن آج تک کوئی بھی ذمے دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ لوگ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں آتے ہیں لیکن اُن کی بھلائی کے بجائے لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے اور اپنی ہی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہی تو سارا مسئلہ ہے۔ عوام بے چارے صرف منہ لٹکائے دیکھتے ہیں، وہ بھی آسمان کی طرف، اﷲ سے مدد کے طالب ہوتے ہیں۔ٹرانسپورٹ کا بھی بُرا حال ہے، کراچی جو کبھی اپنی روشنیوں کیلئے پورے ملک بلکہ جہاں بھر میں مشہور تھا، اب مسائل کا ڈھیر بن چکا ہے۔ کراچی کو چھوڑیں سارے ملک کا یہی حال ہے، پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ حکومتوں میں ملک کو برباد کردیا گیا۔ بے چارے عمران کہاں تک پرانی کمزوریوں کو دُور کرنے پر وقت ضائع کریں۔ اُنہیں لٹی پٹی معیشت، خالی خزانہ ملا، لیکن اُن کی اپنی شہرت کام آگئی اور مسلم ممالک نے بروقت مدد کرکے کچھ تو ہمیں سہارا دیا۔ اب آئی ایم ایف سے قرضے کوئی اتنی بڑی اہمیت نہیں رکھتے جیسے پہلے تھے، پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے، جس نے ہماری مشکل کافی حد تک آسان کردی ہے۔
نظام حکومت کو صحیح کرنے کی شدّت سے ضرورت ہے لیکن افسر شاہی، اپنے ہی طرز عمل پر یقین رکھتی ہے۔ اُن کی بلا سے ملک چلے یا اُس کا مستقبل تاریک ہوجائے، اُنہیں اپنی عیاشیوں سے ہی فرصت نہیں۔ حزب اختلاف، کابینہ کے ارکان کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتی، سیاست تصادم کی صورت اختیار کر گئی ہے لیکن اس میں عمران کا قصور نہیں۔ اُنہوں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ وہ کرپشن کے خلاف نعرے پر الیکشن جیتے تھے، وہ کرپشن پر کوئی سمجھوتہ کرنے کیلئے کبھی بھی تیار نہیں ہوں گے، لیکن اُن کے وزراء کو لفاظی سے پرہیز کرنا چاہیے، خوامخواہ وہ اپوزیشن کو پلیٹ میں رکھ کر تنقید کا موقع فراہم کردیتے ہیں۔ عمران کی میڈیا ٹیم، جس میں اکثر ردوبدل ہوتا رہتا ہے، اب تک موثر ثابت نہیں ہوسکی، حکومت کا ایک اور ترجمان مقرر تھا۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ (Too many cooks spoil the broth) ’’بہت سے باورچی شوربے کو خراب کرتے ہیں‘‘
بہرحال ان تمام مسائل کے باوجود اﷲ کا شکر ہے کہ پاکستان ترقی کی جانب گامزن ہے۔ اُمید تو ہے کہ مسائل ایک آدھ سال میں کوئی اچھا رُخ اختیار کریں گے۔ دیکھیں ہم ایک قوم کب بنتے ہیں۔ مغربی ممالک نے اسلام کے اصولوں پر عمل کرکے ترقی کرلی، آج وہاں کے لوگ خوش حال ہیں، ہمارے یہاں ابھی تک غربت کا راج ہے۔ ہم آخر اپنے اصولوں سے کیوں پھر گئے، یہی سوال تو اہم ہے۔
 

شیئر: