Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خود انحصاری

***محمد مبشر انوار***
قارئین نوابی دور سے بخوبی واقف ہوں گے اور کسی حد تک ان کے طرز زندگی سے بھی واقف ہوں گے کہ کس طرح رکھ رکھاؤ،شان و شوکت کا اظہار کیا جاتا تھا۔ اناؤں کی تسکین کس طرح حاصل کی جاتی تھی ،مقابلہ بازی میں کیسے اپنی جائیدادیں گروی رکھی جاتی تھی،اللے تللوں پر بے جا نمود و نمائش کی خاطر ساہوکاروں کا محتاج تک بننا گوارا ہوتا تھاتا آنکہ ایک روز اس جھوٹی شان و شوکت کا جنازہ سر بازار اٹھایا جاتا تھا اور وہ شریکہ دار جن سے مقابلہ ہوتا،ایسی صورتحال سے محظوظ ہوتے جبکہ تباہ حال خاندان زمانے کی ٹھوکروں اور رحم و کرم پر آ جاتاہے۔ حد تو یہ کہ اس عالم میں بھی نوابی اکڑفوں برقرار رکھنے کی کوشش کی جاتی اور اس امید پر زندگی گزار دی جاتی کہ 
رنگ لائے گی فاقہ مستی ایک دن 
 کبھی کبھار یوں بھی ہوتا کہ کوئی ذی ہوش،حقیقت پسند ڈوبتی کشتی سنبھالنے کی کوشش کرتا اور آگے بڑھ کر زمام کار اپنے ہاتھوں میں لے کر ،معاملات کو سنبھال بھی لیتا اور خاندانی چشمک و مقابلے بازی سے نکل کر کشتی کو ساحل تک لے ہی آتا۔آج پاکستان کے حالات بعینہ ایسے ہی نظر آ تے ہیں،جہاں مغل شہزادوں نے اس گھر کی ایک ایک اینٹ تک عالمی ساہوکاروں کے ہاتھوں گروی رکھ کر اپنے اللوں تللوں کی خواہشوں کو پورا کیا ہے مگر مجال ہے کہ اپنے ذاتی کاروبار میں کسی ایسی حماقت کا ایک چھوٹا سا ارتکاب بھی ان سے سر زد ہوا ہو۔ ذاتی کاروبار تو دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہا مگر ریاست ،جو امانتاً ووٹوں کے ذریعے انہیں سونپی گئی،وہ بری طرح تباہی کا شکار ہوتی چلی گئی۔ اس منصب پر بیٹھے کسی بھی خاندان کو اس ریاست پر ترس نہیں آیا اور سب نے اس کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا بلکہ مقابلہ تو اس حقیقت کا تھا کہ کون کم وقت میںزیادہ لوٹتا ہے۔ ایک خاندان اگر سودے بازیاں کرتا رہا تو دوسرا خاندان اسکے علاوہ بھی دو قدم آگے انتہائی مہارت کے ساتھ، قوانین کو اپنے حق میں موڑ کر ریاستی مالیاتی امور پر ڈاکہ زن رہا۔بہرکیف،وہ وقت تو گزر چکا اور اس وقت ہم ایک ایسے دور میں ہیں جہاں نہ صرف پوری قوم کو بلکہ عالمی برادری تک کو یہ یقین دلایا گیا کہ متبادل قیادت نہ صرف ایماندار ہے بلکہ وہ پاکستان کی بہتری کے لئے کچھ کرنا بھی چاہتی ہے۔ قیادت کی حد تک تو بات ٹھیک تھی مگر موجودہ سیاسی نظام میں یہ ممکن ہی نہیں کہ اکیلی قیادت پاکستان کو ٹھیک کرنے کا بوجھ اٹھا سکے کہ یہ ٹیم ورک ہے جو پاکستان کو اس دلدل سے نکال سکے۔ مزید بد قسمتی یہ ہوئی کہ اکثریت حاصل کرنے کیلئے انہی الیکٹ ایبلز کا انتخاب کیا گیاجو واقعتاً اس بربادی کے ذمہ دار رہے ہیں ۔پاکستان اس وقت جن مسائل کا شکار ہے ان میں سرفہرست معیشت ہے اور جیسا اوپر عرض کیا ہے کہ مغلیہ شہزادوں نے اس ’’گھر‘‘ کی کوئی ایک چیز بھی رہن سے نہیں بچائی،نئی حکومت کے لئے انتہائی مشکل صورتحال چھوڑی ہے مگر اس مشکل صورتحال میں ابھی تک نااہلیت کا جو تڑکہ موجودہ حکومت لگا رہی ہے،اس سے بے یقینی کی صورتحال اور بڑھتی جارہی ہے۔ کل تک اپوزیشن میں رہتے ہوئے جس عوامی استحصال کی بات یہ حکومت کر تی تھی،آج حکومت میں آنے کے بعدخود اس کاارتکاب کر رہی ہے۔ جس کی چھوٹی سی مثال موبائل فون کے ریچارج پر ٹیکس کا نفاذ ہے،کل تک یہی ارسطو سارے زمانے میں کہتے تھے کہ یہ حکمرانوں کی ذاتی جیبوں میں جا رہا ہے،کوئی بتائے گا کہ آج یہ ٹیکس کس کی جیب میں جا رہا ہے؟یہی صورتحال پٹرول کی تھی،جب کہا جاتا تھاکہ تیل کی قیمت میں 100 فیصد ٹیکس شامل ہے،جو حکمران طبقہ اپنی عیاشیوں کیلئے غریب عوام کی جیب سے نکال رہے ہیں،آج یہ اضافی ٹیکس کیوں وصول کیا جارہا ہے اور کس کی جیب میں جا رہا ہے؟کل تک اس عزم کااظہار کیا جاتا تھا کہ ہمارے پاس زمانے کے ارسطو ہیں اور صرف ہم ہی ہیںجو پاکستان کی ڈوبتی کشتی کو کنارے تک بحفاظت پہنچا سکتے ہیں،پاکستان کی معاشی کشتی مزید ہچکولے کیوں کھا رہی ہے؟اس قوم کی درماندگی تو دیکھیں کہ پچھلے 71برس سے قربانیاں دئیے جا رہی ہے اور ہر آنے والا حکمران قوم سے ہی قربانی کا طلبگار ہے ، سارے ٹیکس غریب عوام پر لگائے جارہے ہیں،کبھی نہیں دیکھا کہ اس قوم کے امراء نے ملک و قوم کیلئے قربانی دی ہو۔ اب تو مزید حیرت یہ ہو رہی ہے کہ ہیئر ڈریسرز بھی اس ٹیکس نیٹ میں لائے جار ہے ہیں،جبکہ مراعات یافتہ ابھی تک اس میں شامل نہیں کر پائے۔میرا ایمان ہے اگر حکمران یا اشرافیہ دیانتدار ہو تو کوئی بھی ملک و قوم کی بہتری کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرے مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہماری اشرافیہ قربانیاں صرف عوام سے مانگتی ہے۔ خدا کی پناہ کن کارناموں میں پچھلی اشرافیہ سے مختلف ہیں؟جائیدادیں ہیں کہ ساون میں حشرات الارض کی طرح پھوٹ رہی ہیں،جبکہ دعوے بڑی پارسائی کے رہے ہیں۔ کیا یہی وجہ تھی شہبازشریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئر مین بنانے کی؟کہاں ہیں 2 سو ارب ڈالر واپس لانے کے دعوے؟کہاں ہیں مہارت تامہ کے حامل افراد جنہیں اداروں کو ٹھیک کرناتھالیکن یہ کیا ؟ خود انحصاری کا دعوی کرنے والوں سے آج تک یہ نہیں سنا کہ ان کے طے کردہ اہداف کس طرح حاصل ہوں گے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں ہر ٹاسک کو ایک منصوبے کے طور پر لیا جاتا ہے جس میں نہ صرف تمام تر لائحہ عمل بلیک اینڈ وائٹ میں لکھا جاتا ہے بلکہ اس کے لئے وقت مقرر کیا جاتا ہے کہ اتنے وقت میں یہ اہداف حاصل کر لئے جائیں گے مگر یہاں ابھی تک صرف گفتند نشتند برخاستند جاری ہے۔ صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ ہم یہ کر دیں گے،ہم وہ کر دیں گے کہیں بھی وقت اور لائحہ عمل کا ذکر نہیں،خود انحصاری خالی و کھوکھلے دعوؤںسے نہیں ملتی۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں