Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بہو ،نہ سسرال کے طریقہ کار سے واقف ،نہ گھر والوں کے اطوارسے

مسز ربانی ۔ جدہ
    وہ اسکی سسرال کا پہلا دن تھا۔ ڈری ڈری اسی صوفے کے کونے پر بیٹھی مسکرانے کی کوشش کررہی تھی۔میں نے بھانپ لیا کہ وہ اندر سے بہت اداس تھی ۔سب کچھ پیچھے رہ گیا اور وہ ایک شخص کے ساتھ اکیلی لمبے سفر پر آگئی۔ اسکا گھر، والدین، دوست ، گلی محلہ ، اسکول سب کچھ چھوڑ کر میں بھی ایک عورت ہوں، اس احساس سے میں بھی گزر چکی ہوں۔ میں نے اسکا ہاتھ تھاما اور پوچھا کیا بات ہے، سب یاد آرہے ہیں ؟یہ بھی تمہارا گھر ہے، ہم سب تمہارے ہیں ۔ وہ روپڑی۔ بہت تکلیف ہوئی کہ عورت کی محبت اور اسکا صبر آفرین ہے،قدرت کے اس بہترین شاہکار پر کہ وہ جہاں بھی جائے ،اس گھر اس جگہ کو رونق بخشتی ہے مگر خود بہت تکلیف سے گزرتی ہے۔
    پھر یہی لڑکی جب کسی فیملی میں آتی ہے تو اسے بہت سی چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ نہ توسسرال کے طریقہ کار سے واقف ہوتی ہے ،نہ گھر والوں کی عادات و اطوارسے ۔بہو ایسی معصوم ہستی ہوتی ہے جسے نہ توسسرال کے کھانے پینے کے معمولات کا علم ہوتا ہے نہ ہی دیگرروایات کا۔ بہرحال وقت اور حالات اسے سب کچھ سکھا دیتے ہیں کیونکہ اب تو یہ سسرال ہی اس کی زندگی کا آخری اسٹیشن ہوتا ہے۔
    امی آپ کے پیروں کے ناخن بہت بڑے ہیں، لائیں میں کاٹ دوں۔ ارے نہیں بھئی میں کاٹ لیتی ہوں۔ تو کیا ہوا آج میں کاٹ دوں ۔ اس طرح دل پر محبت کی ایک بوند ٹپکا دی۔ اسی طرح کے چھوٹے چھوٹے کام دل میں محبت بڑھاتے ہیں اور اجر الگ ملتا ہے۔
    اس نے کچن میں آتے ہی کہا کہ مجھے تو کچھ نہیں آتا، میں کیسے پکاﺅں گی؟ اس پر ساس کو یہ کہناچاہئے کہ پھر کیا ہوامیں بھی تو پہلے ایسی ہی تھی تمہاری طرح اللہ کریم ہماری ساس کوبخشے۔ انہوں نے ہمیں سب کچھ سکھا دیا مگر ہماری ساس بہت سلیقہ مند اور کفایت شعار تھیں۔ مجھے اپنے آپ کو ان کی مرضی کے مطابق ڈھالنے میں کئی سال لگے مگر بہو، تم بالکل نہ گھبراﺅ ۔جو سمجھ میں آئے جیسے آئے وہ تم کرو۔ اگر کچھ سمجھ میں نہ آئے تو مجھ سے پوچھ لو۔وہ یوں مطمئن ہوگئی اور آہستہ آہستہ کچن سنبھال لیا۔
    میں کافی حد تک فری رہتی۔ اپنی تحریر اور مطالعے کو زیادہ وقت دینے لگی۔ بنی بنائی چائے ملتی ، دھلے دھلائے کپڑے، شادی کے 30سال بعد احساس ہوا کہ رقم اچھی جگہ لگی ہے، نفع بھی مل رہا ہے۔ جہاں تنہائی کا راج تھا ،میں ا ور کتابیںتھیں،وہاں ایک میاں مٹھو بولنے لگا۔ بھلا اس میں بوریت کیسے ہوتی۔
     وقت کیسے گزرا، پتہ ہی نہیںچلا۔ جب وہ میرے گھٹنے پر سر رکھتی تو ایک احساس ہوتا اپنائیت کا۔ کبھی وہ میرے پیر دباتی اور کبھی لیٹ جاتی ۔میری خوش نصیبی تھی کہ چند دن میں میرا گھر ،گلشن بن گیاورنہ اس سے پہلے میں اندر سے ڈری سہمی رہتی تھی کہ اب ماحول یکسر بدل جائے گا۔ روز ، روز کی کھٹ پٹ، کھینچا تانی، جیسا کہ گھروں کا ماحول ہوتا ہے لیکن احسان ہے اس رب کائنات کا جو اپنے بندوں کا مدد گار ہے اور نیتوں کے مطابق اجرعطا فرماتا ہے۔
    میرا دل چاہتا ہے کہ بس وہ خوش رہے، ہم مل کر کام کریں۔ اس پر بوجھ نہ ہو۔صرف کام ہی نہیں کسی بھی بات کا بوجھ نہ رہے۔ اسے کوئی تکلیف نہ ہو اور نہ ہی وہ میری وجہ سے روئے ،نہ میں اسکی دل شکنی کروں۔ میں کئی کئی بار خود سے عہد کرکے خود کو ثابت قدم رکھنے کی کوشش کرتی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں زبردستی کرکے اس سے اپنی خدمت کروا لوں ۔میری خواہش ہوتی ہے کہ وہ خوش رہے اور خوشی خوشی اس گھر میں جتنا حصہ ڈال سکتی ہے ، ڈالے، باقی سب میری ذمہ داری ہے مگر ان سب کے عوض وہ محفوظ محسوس کرے۔ میں بحیثیت ساس اس وقت بے حد خوش ہوتی ہوں جب میری بہو اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ میں آپ کی شکایت امی سے کروں گی تاکہ وہ آپ کو ڈانٹیں۔کوشش یہی ہے کہ میں اسے اتنا تحفظ دے سکوں۔ یقینا وہ میری بیٹی نہیں اور میں اسکی ماں نہیں مگر ہم دونوں احسان کے درجے پر ایک دوسرے کی زندگی آسان بناسکتے ہیں۔
    اکثر لوگوں کی تحریر ساس ،بہو کے حوالے سے شکوے اور شکایت پر ہی مبنی ہوتی ہے۔ ہم دراصل ساس بہو بن کر دونوں ایک دوسرے کو حقیقی درجہ دینے کی روادار نہیں ہوتیں۔ اگر یہ ہوجائے تو مسائل ہی ختم ہوجائیں۔اگر یہ مسائل ختم ہوجائیں تو دنیا میں ایک خوبصورت رشتہ جو ہمیشہ سے تناﺅ کا شکار رہا ہے، صاف شفاف ہوجائیگا۔اگر بہو ، شوہر اور اسکے گھر والوں کو اہمیت دے اور ساس، بہو اور اسکے گھر والوں کو اہمیت دے تو مسائل ہی نہیں رہیں گے۔
    دراصل ہمارا یہ طریقہ کار رہا ہے کہ لڑکی والوں کی کسی نہ کسی شکل میں تحقیر کی جائے اور انکی بیٹی کی چھوٹی چھوٹی خامیوں کو بڑا کرکے پیش کیا جائے اور ان کو احساس دلایا جائے کہ انکی تربیت میںسقم ہے جبکہ سچ یہ ہے کہ ہر انسان وقت کے ساتھ ہی تجربہ حاصل کرتا ہے۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان رشتوں میں خون بے شک نہیں ہوگا مگرمحبت کا پسینہ ضرور ڈالیں۔ ایک دوسرے کو سمجھنے میں آسانی پیدا کریں اور جاننے اور پہچاننے کی کوشش کریں۔ ان رشتوں کو وقت دیں اور بہت سی باتوں کو نظر انداز کریں اتنا کہ جتنا ہم اپنی اولاد کی بہت سی باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اللہ کریم کی رضاکا یہی بہتر طریقہ ہے کہ لوگوں کے راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹایا جائے۔
    آج میں نے تحریر کو دوسرا رخ دیا ہے اور یہ تجرباتی رخ ہے ۔میری اپنی زندگی کسی کی سنی سنائی یا بنی بنائی کہانی نہیں۔ لڑکے والے لڑکی کے والدین کو باتیں سنا کر خوش ہوتے ہیں۔ میں انکا شکریہ ادا کرکے خوشی محسوس کرتی ہوں کہ انہوں نے اپنی قیمتی چیز مجھے دی۔ اتنی بہترین تربیت کے ساتھ ،اتنے اچھے اخلاق کے ساتھ ،شاید اس کے بدلے وہ سونے کا پہاڑ بھی دیتے تو میرے لئے بے کار تھا۔ ایسے والدین کی تربیت کا معترف ہونا بھی ان کا حق ہے۔ خوش رہیں اور دوسروں کوخوش رکھیں ۔اولاد کی تربیت بہترین کریں تاکہ وہ آپکی شرمندگی کی بجائے خوش بختی کا سامان بنے۔
    وہ لوگ جو بچوں کے رشتوں کے حوالے سے پریشان ہوتے ہیں وہ اپنے پاس ایک تحریر رکھیں کہ انہیں لڑکی میں کیا چاہئے کیونکہ اکثر خاک چھاننے کے باوجودان کے نصیب میں کھوٹہ سکہ ہی آتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ فیصلے مکمل طور پر اپنے حق میں چاہتے ہیں۔ کہیں انکی خواہش خوبصورتی ہوتی ہے اورجب وہ پوری ہوجاتی ہے تو انکی خواہش ہوتی ہے کہ دولت مند ہو۔ اگر دونوں ہو ں تو وہ ذات برادری کے چکر میں پھنس جاتے ہیں ۔خواہش رکھیں مگر اصل چیز ہے لڑکی اور اسکے گھر والوں کے عقائد، سیرت و اخلاق۔ جس سے آپ اور آپکے بچے کی آنے والی زندگی آسان ہو۔

 

شیئر: