Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اصولوں کی پاسداری یا سمجھوتہ

***ڈاکٹر منصور نورانی***
یہ2001ء کی بات ہے اور ابھی تازہ تازہ نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تھا۔افغانستان میں ملا عمر کی قیادت میں طالبان کی حکومت رائج تھی۔امریکا نے القاعدہ کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا اور ملا عمر سے مطالبہ کرڈالا کہ اسامہ بن لادن کوجو اُس وقت تک افغانستان میں موجود تھا اُس کے حوالے کیاجائے لیکن ایسا کرنے سے صاف صاف انکارکرتے ہوئے ملا عمر نے اسامہ کو براہ راست امریکہ کے حوالے کرنے کی بجائے ایک تیسرے غیر جانبدار ملک کے حوالے کرنے کی پیشکش کی تاکہ اگر وہ مجرم ہے تو اُس کے ساتھ مکمل انصاف کیا جاسکے۔ اُنہوں نے امریکہ سے مزید کہا کہ اُسامہ ہمارا مہمان ہے اور ہم اپنے مہمان کو اُسکے دشمن کے حوالے نہیں کرسکتے۔اِدھر امریکہ نے پاکستان کی فوجی حکومت پر بھی ساتھ ساتھ دباؤ بڑھانا شروع کردیا کہ وہ اپنااثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ملا عمر کو ایسا کرنے پر مجبور کرے۔ہمارے اُس وقت کے حکمران جنرل پرویز مشرف نے اِس حکم کی بجاآوری میں ملا عمر کو براہ راست اور بلواستہ طور پر حالات کی سنگینی کا احساس دلانا شروع کردیا اورہم خیال مذہبی جماعتوں کے ایک وفد کو کابل روانہ کیا تاکہ ملا عمر اُن کی بات کو رد نہ کرسکے۔وفد میں شامل افراد نے ملا عمر کو بہت سمجھانے کی کوشش کی اوراُنہیں انکار کی صورت میں سنگین نتائج بھگتنے سے متننبہ بھی کیا مگرملا عمر نے اُس وفد کو بھی یہ کہکر انکارکردیا کہ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اُسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے کے بعد بھی کیا امریکہ ہمیں معاف کردیگا۔نہیں وہ ہمیں پھر بھی نہیں چھوڑے گا۔پھر ہم اپنے مہمان کو اپنے ہاتھوں سے اُسکے حوالے کیوں کریں۔عالمی طاقتوں کی سیاست اور نفسیات کو سمجھنے والا یہ شخص کوئی بہت بڑا مفکر اور فلاسفی نہیں تھا۔ وہ ایک سادہ سادیندار منکسرالمزاج شخص تھا ۔اُسے اپنے اقتدار سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ وہ اِسے اللہ کی طرف سے دی گئی صرف ایک ذمہ داری سمجھ رہاتھا۔اُسے اقتدار کی خواہش اور طلب ہرگز نہ تھی۔اُسے معلوم تھا کہ امریکہ کی نافرمانی کی صورت میںاُس کا حشر کیا ہوگا لیکن اُس نے ظلم اور ذیادتی کے آگے سرجھکانے سے انکار کردیا۔اُس نے اپنے اقتدار کو داؤ پرلگاکر اپنے مہمان اُسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے صاف صاف انکار کردیا۔ پھر جو کچھ ہوا اُسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں لیکن اِس کے برعکس جب ہم اپنے کردار اور اپنے طرز عمل پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم خود کو ملا عمر کے مقابلے میں بہت چھوٹا اور نیچا تصور کرتے ہیں۔ہم نے امریکہ کی حکم برداری میں اپنا سب کچھ اُس کے حوالے کردیا۔غیر ملکی مہمان تو کجا ہم نے اپنے لوگ بھی امریکہ کے سپرد کردئیے۔ ایک یا دو نہیں سینکڑوں پاکستانی اُس کے ایک حکم پر نہ صرف اُس کے حوالے کردئیے بلکہ اِس کام کے بدلے ہزاروں ڈالر بھی وصول کئے اور اِس کا برملا اعتراف بھی ہم بڑی شان وشوکت سے اپنی کتابوں میں بھی درج کرتے رہے۔ جنرل مشرف نے اپنی قوم کو پتھروں کے دور میں بھیجے جانے کا خوف دلاکرایسے ایسے کارنامے کئے کہ جنکا تذکرہ کرتے ہوئے ہماری نظریں شرم سے جھک جاتی ہیں۔
ہمارے یہاں اقتدار کی خواہش اور طلب رکھنے والے سیاستداں اُس کی بے وقعتی اوربے ثباتی کو جانتے ہوئے بھی اقتدار سے چمٹے رہنے کی آخر دم تک کوشش کرتے رہتے ہیں۔وہ اپنے تما م اُصول اور ضابطے صرف اقتدار بچانے کیلئے قربان کردیتے ہیںمگر اقتدار پھر بھی اُن کے ہاتھوں سے چھین لیاجاتا ہے۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان صاحب بھی برسراقتدار آنے سے پہلے بہت بااُصول اور باوضع تصور کئے جاتے تھے۔اُن کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ اپنے قول کے مطابق اقتدار کو بچانے کیلئے کبھی اُصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ ڈٹ جائینگے اور کبھی اپنے نظریات اور اُصولوں کی قربانی نہیں دینگے۔وہ اقتدار کو ٹھکرا دینگے مگر کسی دباؤ کا شکار نہیں ہونگے۔اُن کے بارے میںیہ سارا تاثر عوام نے اُن کے 22 سالہ سیاسی بیانوں اور تقریروں سے اخذ کیاتھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ اُن کاعمران خان بہت ہی نڈر ، باضمیر اور بااُصول شخص ہوگا۔وہ اقتدار کو بچانے کیلئے کبھی کوئی سودے بازی نہیں کریگامگر افسوس کہ اُن سے متعلق یہ ساری غلط فہمیاں اور خوش گمانیاں چند مہینوں میں ہی زائل ہوگئیں۔خان صاحب نے اپنے اقتدار کو پانے اور بچانے کیلئے پہلے دن ہی سے تما م اُصول اورضابطے ایک طرف رکھدئیے۔ غیر ممالک سے قرضے اور امداد مانگنے کی بجائے خود کشی کادعویٰ کرنے والے عمران خان نے جو کچھ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔اِن سے پہلے آنے والے حکمراں تو صرف ایک یا2 دوست ممالک سے امداد لے لیاکرتے تھے لیکن اِنہوں نے تو کسی بھی دوست ملک کو نہیں چھوڑا ۔جس کسی نے ذرا سی نظر التفات ڈالی یہ فوراً امداد مانگنے اُس کے در پر پہنچ گئے۔
خان صاحب نے جتنے قرضے اب تک لے لئے ہیں وہ ہماری معاشی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلنا بھی نہیں چاہتے اور محاذآرائی پر مسلسل آمادہ بھی ہیں ۔مگر نادیدہ قوتوں کی جانب سے اپوزیشن کے ساتھ پس پردہ کسی نرمی اورڈھیل سے بھی خوفزدہ ہیں۔اِس لئے وہ اوراُن کے ساتھی صبح و شام کسی متوقع این آر او کے خلاف بیان بازی کرتے رہتے ہیں۔خان صاحب جس طرح اپنے ماضی میں دئیے گئے بیانوں سے یو ٹرن لیتے رہے ہیں۔ سیاست میں ویسے بھی کوئی شے آخری اور حتمی نہیں ہواکرتی ۔یہاں حالات اور واقعات کے مطابق اُصول اور نظریات بھی بدل جاتے ہیں۔ملا عمر جیسے حکمراں بہت کم کم ہی نظر آتے ہیں جنہیں اقتدارسے کوئی لگاؤ اور محبت نہ ہو۔ یہاں تو ساری جدوجہد اور لڑائی ہی اقتدارو اختیار کے حصول کیلئے ہواکرتی ہے ۔
میاں صاحب کو عدالت نے نااہل قراردیا تھا اوراب عدالت ہی سے اُنہیں ریلیف بھی ملے گا۔اِسے آپ خواہ این آر او کا نام یا کوئی ڈیل یا ڈھیل قرار دیں۔اور یہ سب کچھ خان صاحب کی نظروں کے سامنے ہی ہوگا۔واللہ اعلم بالصّواب۔
 

شیئر: