Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کلیدی ملازمتوں کی سعودائزیشن اور تارکین فیس

عبدالحمید العمری۔ الاقتصادیہ

    میں اس سے قبل بھی اس موضوع پر اظہار خیال کرچکا ہوں۔ نجی اداروں میں سعودیوں کور وزگار کے مواقع فراہم کرنے کے حوالے سے میری سوچی سمجھی رائے کے مطابق مندرجہ ذیل اقدامات ناگزیرہیں:
    1۔سعودائزیشن کا پروگرام اس انداز سے ڈیزائن کیا جائے کہ کلیدی ملازمتوں اور ایگزیکٹیو کلاس کی آسامیوں کیلئے سعودی تعینات کئے جائیں ۔ سعودائزیشن کے سلسلے میں تعداد سے زیادہ معیار پر توجہ مرکوز کی جائے۔ معمولی درجے کی ملازمتوں میں سعودی دلچسپی نہیں رکھتے لہذا ایسی ملازمتیں کرنے والے کتنی بھی تعداد میں رخصت کیوں نہ کردیئے جائیں ان سے سعودیوں کی بے روزگاری کم نہیں ہوگی۔
    2۔تارکین فیس کا طریقہ کار تبدیل کیا جائے۔ تارکین، ان کے مرافقین اور تابعین سے فیس ان کی تنخواہ کے تناسب سے وصول کی جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اعلیٰ تنخواہ والوں سے بھاری فیس وصول ہوگی جبکہ معمولی محنتانے والوں سے فیس نہ ہونے کے برابر وصول کی جائیگی۔ اس کے خوشگوار اثرات سعودیوں پربھی پڑینگے اور کم تنخواہ والے تارکین بھی راحت کا سانس لینگے۔
    موجودہ صورتحال یہ ہے کہ سعودائزیشن پروگرام کے تحت 2016کی تیسری سہ ماہی کے اختتام سے لیکر 2018کے اختتام تک تقریباً17لاکھ غیر ملکی سعودی عرب سے رخصت ہوئے ۔ ان میں سے97فیصد کا تعلق معمولی آمدنی اور معمولی ملازمت والوں میں سے تھا۔21.5فیصد معمولی آمدنی والے ملازم سعودائزیش کی پالیسی سے متاثر ہوئے۔گزشتہ عرصے کے دوران نجی اداروں میں غیر ملکی کارکنان کی مجموعی تعداد 19.7فیصد تک کم ہوئی مگر اعلیٰ آمدنی والی ملازمتوں میں 4.0فیصد ہی کی کمی ریکارڈ کی گئی۔ دوسری جانب مذکورہ عرصے کے دوران سعودیوں کو نجی اداروں میں 1.7فیصد تک ہی ملازمتیں حاصل ہوئیں۔
    اس صورتحال نے سعودائزیشن کے پروگراموں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت اجاگر کی۔نئی صورتحال کا تقاضا ہے کہ انتظامی معیارکے حوالے سے سعودائزیشن پر زور دینا ہوگا۔ اسی طرح تنخواہوں کے معیار کے حوالے سے سعودائزیشن کی پالیسی بنانا ہوگی۔ علاوہ ازیں تارکین فیس تنخواہوںکے تناسب سے وصول کرنے کا پروگرام بنانا ہوگا۔
    مارکیٹ کا جائزہ بتاتا ہے کہ گزشتہ عرصے کے دوران سعودائزیشن کی رفتار 1.7فیصد رہی۔ رفتار نہایت مدھم ہے۔ بیروزگاری کم کرنے اور نجی اداروں میں سعودی ملازمین کی تعداد بڑھانے کا ہدف پورا نہیں ہوا۔
    نجی اداروں میں نئی اسامیاں پیدا کرنا بیحد اہم ہے۔ اس کی بدولت روزگار کے متلاشی حضرات و خواتین کی بڑی تعداد کو کھپایاجاسکے گا تاہم موجودہ اسامیوں پر سعودیوں کی تقرری کم اہم نہیں ۔دونوں محاذوں پر بیک وقت کام کرنا ہوگا۔ ایک طرف نئی اسامیاں پیدا کرنی ہونگی اور دوسری جانب موجودہ آسامیوں کو سعودیوں سے پُر کرنا ہوگا۔دونوں میں سے کسی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ابتک ہوتا یہ رہا ہے کہ معمولی درجے کی ملازمتیں رکھنے والے زیادہ تعداد میں ملک سے رخصت ہوئے۔
    یہ درست ہے کہ ہمیں معمولی ملازمتوں پر جو کثیر تعداد میں ہیں سعودیوں کی تقرری کرنی چاہئے لیکن اقتصادی و سماجی حالات اس کی اجازت نہیں دے رہے۔ ہمارے یہاں 90فیصد خواتین و حضرات ثانوی پاس یا اس سے اعلیٰ سرٹیفکیٹ رکھنے والے ہیں۔ یہ معمولی ملازمتیں قبول نہیں کرینگے۔922ہزار ملازمتیں ایسی ہیں جن پر 2018کے اختتام تک تارکین برسرروزگار پائے گئے۔ یہ بیروزگار سعودیوں کی تعداد سے1.2فیصدگنا زیادہ ہے جبکہ معمولی اجرت والی ملازمتوں کی تعداد 0.6ملین ہے۔یہ سعودیوں کو مطلوب ملازمتوں سے 6گنا زیادہ ہے۔یہ بہت بڑا چیلنج ہے۔ اسے اعلیٰ اور درمیانے درجے کی ملازمتوں پر سعودیوں کی تقرری سے پورا کیا جاسکتا ہے۔
 

مزید پڑھیں:- - - -غیر ملکی کو اپنے نام سے سعودی کا کاروبار کرانا

شیئر: