Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان کا دل ، میٹرو پولیٹن سٹی کراچی لاوارث بن چکا ؟

 بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ جہاں مسائل ہیں وہیں ملک کی تنزلی کی وجہ یہ ہے کہ ہم گردن تک کرپشن کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں
عنبرین فیض احمد ۔ ینبع
پاکستان کا دل ، میگا سٹی، میٹرو پولیٹن سٹی ، معاشی حب، روشنیوں کا شہر اور نہ جانے کیا کیا نام شہر قائد کو ملے۔ مگر افسوس یہ وہ شہر ہے جو اب لاوارث بن چکا ہے جو پاکستان کا معاشی حب ہے۔ جس سے پاکستان کی 70فیصد آمدن ہوتی ہے یہی شہر اپنے وجود سے پورے ملک کو سیراب کرتا ہے لیکن اب خود اسکا وجود ایک کھنڈر سے کم نہیں کیونکہ کوئی اس شہر کے مسائل کو دیکھنے والا نہیں۔ 2 کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر میں اگر مسائل کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو مسائل کے انبار ہی انبار دکھائی دیتے ہیں۔کراچی کے عوام ہمیشہ ان مسائل سے نبرد آزما ہی رہے ہیں کبھی کچرا، کبھی سیوریج، کبھی پانی کی قلت، کبھی پارکنگ اور پھر کبھی ٹریفک اور تو اور کبھی دہشتگردی ۔ یہ وہ مسائل ہیں جنہیں بنیادی سہولتیں کہا جاتا ہے۔کراچی کے شہری اپنی بنیادی سہولتوں کےلئے سسک سسک کر جیتے رہے ہیں مگر افسوس! حکومت عوام کو ان کے مسائل سے چھٹکارا نہ دلاسکی۔ یہ سب بلدیہ کراچی اور صوبائی حکومت کی نااہلی اور ناقص کارکردگی کا نتیجہ ہے اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو پوری طرح نبھانے کے بجائے صرف ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے کام لیتے رہتے ہیں۔ جس سے آج کراچی شہر تباہی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔ شہریوں کی زندگی کسی عذاب سے کم نہیں۔
کراچی کے اندر ٹرانسپورٹ ، صفائی ستھرائی ، سیوریج اور پھر سڑکوں کی خستہ حالی سے ہر لمحہ ہر کراچی کے باسی کو گزرنا پڑتا ہے۔ اتنی بڑی آبادی والے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا کوئی موثر انتظام نہیں روزانہ لاکھوں شہری بسوں کی چھتوں پر چڑھ کر اور دروازوں سے لٹک کر سفر کرتے ہیں وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سفر کرتے ہیں کہ کب کیا ہوجائے ۔ اگر کوئی گر کر ہلاک ہوجائے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟یہی وجہ ہے کہ بچہ، بوڑھے ، جوان ، خواتین ، طلباءو طالبات شدید ذہنی و جسمانی اذیت اور پریشانی کے عالم میں روزانہ سفر کرتے ہیں اور پھر کچرے کے ڈھیر ، گندے پانی کے جوہڑ ہر طرح دکھائی دیتے ہیں جس سے مختلف قسم کے جراثیم پیدا ہوتے ہیں۔شہر میں مختلف قسم کے امراض جنم لیتے ہیں اورسڑکوں کا یہ عالم ہے کہ ہر جانب بڑے بڑے گڑھے پڑے ہوئے ہیں ۔ اگر کوئی موٹر سائیکل سوار یا پھر کوئی گاڑی گزر جائے تو بری طرح ہچکولے کھاتی ہوئی گزرتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی رولر کوسٹر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال سے ایک عام شہری بری طرح متاثر ہورہا ہے اور وہ خیر کی دعائیں کرتا اپنی منزل کو پہنچتا ہے۔
ملکی سیاست میں اہمیت کا حامل یہ شہر ہمیشہ سے محرومی کا شکار رہا ہے۔ جب بھی کوئی حکومت آئی بدقسمتی سے اس نے شہر قائد پر کبھی توجہ نہیں دی۔ کبھی بے گناہ قتل و غارت گری ہوتی رہی تو کبھی مذہبی انتشار سے کراچی اور اس کے شہریوں کا سکون غارت کیا گیا۔ اس شہر کو کبھی اصل زندگی جینے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ہمیشہ اس شہر کے باسیوں کے ذہنوں میں ڈر و خوف اور مایوسی کی فضا طاری رکھی گئی۔
قدرتی بندرگاہ رکھنے والے اس معاشی شہر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکمرانوں نے اسے سندھ کا دارالحکومت بنایا اور پھر قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے بھی اسی شہر کو اپنا مسکن بنایا او ریہی مدفون ہوئے۔ مسلم دنیا کا ساتواں بڑا شہر یہی ہے لیکن افسوس حکومتی بے توجہی کی وجہ سے آج شہر قائد کا حال بہت برا ہے کہ وہ مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ جہاں کبھی سڑکیں دھلا کرتی تھیں اب گندگی کے ڈھیر ہی نظر آتے ہیں۔ روا داری و محبت کی جگہ فرقہ واریت اور لسانی نفرت نے لے لی۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شہر بھر کے ابلتے نالوں کے ذریعے شہر کے مسائل بھی اگل رہے ہیں لیکن کوئی نہیں جو ان سڑکوں کی حالت کو دیکھے جو تالاب کا منظر پیش کررہی ہیں کوئی نہیں جو نوحہ کناں سڑکوں کی آہ و بکا کو سنے۔ اگر کوئی سن بھی لے تو کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔
کراچی کے شہریوں کے خدمت گزار اور شہر کی تعمیر کرنے کے دعویدار صوبائی حکومت اور اختیار ات کا رونا رونے والی مقامی حکومت کے درمیان صرف اور صرف بیان بازی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ دو سے ڈھائی کروڑ آبادی والے شہر کے مسائل کے حل کیلئے ابھی تک کوئی نظام نافذ نہیں کیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے کراچی کے شہریوں کو بلدیاتی نظام کے نام پر مذاق کے سوا کچھ نہیں دیا جارہا۔ اس لئے شہر کا ستیاناس ہی ہورہا ہے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں ۔ شہر کے نمائندے یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکے کہ شہر کو کونسا نظام دیا جائے جس شہر کا کوئی پرسان حال نہ ہو تو اس شہر کا کیا حال ہوگا۔ حکمرانوں کی رسہ کشی تو ایک طرف لیکن اسکا خمیازہ تو ہماری کراچی کی عوام بھگت رہی ہے۔ ضرور ت اس امر کی ہے کہ گزشتہ کئی دھائیوں سے حکومتی توجہ سے محروم کراچی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
کراچی کی عوام جو سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ اٹھ کھڑی ہو اور کراچی کی کایا ہی پلٹ جائے۔ وہ یہ سوچ کر اپنے مسائل سے نبرد آزما ہوتے ہیں کہ شاید کوئی مسیحا انکی مسیحائی کرنے کیلئے آجائے مگر ابھی تک ایسا نہیں ہوا ۔ ویسے بھی یہ شہر پورے ملک کا تھا اور معاشی شہ رگ ہے۔ حکومت کو اس شہر کے باسیوں کے بارے میں ضرور سوچنا چاہئے۔
بہرحال کراچی کے باسی توقعات باندھنے اور خواب دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس شہر کی جو صورتحال ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ایسے میں شہریوں کو داد دینی چاہئے جبکہ وہ صرف خواب ہی دیکھنا نہیں چھوڑتے بلکہ حکومت سے بھی امید لگائے بیٹھے ہیں۔ کیا ارباب اختیار اپنے شہریوں کو جن سے وہ روزانہ اربوں روپے کا محصول وصول کرتے ہیں انہیں انکے خوابوںکی تعبیر دیکر سرخرو نہیں ہوسکتے۔
دھنک کے صفحے پر جو تصویر شائع کی گئی وہ کراچی کی معروف شاہراہ یونیورسٹی روڈ کی ہے۔ جہاں پیدل چلنے والوں کیلئے پل قائم کیا گیا ہے۔سڑک عبور کرنے کے لئے شہریوں کو اس پل کا استعما ل کرنا پڑتا ہے۔ اس پل کے دونوں جانب گرل لگی ہوئی تھی تاکہ اس پر سے گزرنے والوں کی جان محفوظ رہے مگر دیکھئے یہ ہوگیا کہ اس پل کی گرل جگہ جگہ سے اکھڑ گئی ہے اور کہیں کہیں پر تو یہ موجود ہی نہیں اس سے بس سے اکثر لوگوں کے نیچے گرنے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ اس سے حکومتی لاپروائی اور بے توجہی ظاہر ہورہی ہے۔ ابھی چند دن قبل کی بات ہے کہ حکومت کی طرف سے ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا کہ بغیر ہیلمٹ کے موٹر سائیکل سوار کو پیٹرول نہ دیا جائے اور پھر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ اگر سڑک پر کوئی موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ کے بغیر نظر آجائے تو نہ جانے کہیں کونے کھدرے سے کوئی سرکاری اہلکارنمودار ہوتا ہے اور فوراً موٹر سائیکل سوار کو روک کرچالان کردیتا ہے۔ بے شک ہیلمٹ ہیڈ انجری سے بچاتا ہے مگر کراچی کے باسی تو سدا کے بدقسمت ہیں وہ کس کس چیز سے خود کو بچائیں گے کوئی ایک چیز ہو تو اس سے وہ احتیاط کریں۔
کسی بھی ریاست کی چند اہم ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ اس میں سب سے اولیں ذمہ داری عوام کی جان و مال کی حفاظت کرنا اور شہر میں امن و امان کو قائم رکھنا تاکہ کسی بھی شہری کو کوئی شخص ہراساں نہ کرسکے۔
اس پر کوئی ظلم و زیادتی نہ کرے اس کے علاوہ شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنا جس میں پینے کا صاف پانی، بجلی ، گیس ، تعلیم، صحت اور ٹرانسپورٹ کی سہولت وغیرہ ہے مگر اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ سرکاری ادارے جن کی ذمہ داری ان کاموں کی دیکھ بھال کرنا ہوتا ہے وہ ان میں کوتاہی کرتے ہیں حکومت کی یہ پالیسی نہ ہو مگر اسے ان اداروں پر نظر رکھنی چاہئے تاکہ وہ اپنے کام درست طریقے سے انجام دے رہے ہیں یا نہیں وزارتی عوامی بہبود کیلئے اپنے فرائض درست طور پر انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔ لیکن اگر ملک کے سرکاری اداروں کی صورتحال کو دیکھا جائے تو یہاں تعینات بیشتر افسران کرپشن کے بیمار نظر آتے ہیں۔ ملکی سرکاری اداروں میں محض بورڈ لگا ہوتا ہے کہ یہاں کوئی رشوت ممکن نہیں مگر ایسا نہیں ہوتا ہے۔ ملک و معاشرے سے کرپشن کے ناسور کے خاتمے کے لئے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حکومتی عدم توجہی کے باعث ملک بھر میں کرپشن و بدعنوانی کی صورتحال روز بروز اتنی سنگین سے سنگین تر ہوتی جارہی ہے کہ ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ ہم بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیں۔ اس کرپشن سے بھرپور تھانہ کلچر اور پھر حکومتی اداروں میں کرپشن کا راج، حصول انصاف کا کمزور نظام، مصلحتوں اور بدعنوان افسران کی وجہ سے عوام میں بے بسی اور بے اختیاری کا احساس بڑھتا جارہا ہے او رپھر عوام میں بھی عدم اطمینانی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ جہاں اس کے بڑھتے ہوئے مسائل ہیں وہیں ہمارے ملک کی تنزلی کی وجہ یہ ہے کہ ہم گردن تک کرپشن اور بدعنوانی کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہاں تو ہر طرف کرپشن ہی کرپشن کی صدائیں گونجتی رہتی ہیں جب ملک کا یہ حال ہوگا تو کہاں سے کوئی ادارہ کام کرسکے گا۔
کرپشن سیاسی داﺅ پیچ سے ختم نہیں ہوسکتی بلکہ اسے اپنے اندر سے اپنے کردار سے ختم کرنا ہوگاپھر کہیں جاکر کوئی سچا سیاستدان جو اپنے آپ کو ہماری طرح لائن میں لگ کر اپنے کام انجام دینے کا مزا ج رکھتا ہو وہ ہمارا صحیح معنوں میں رہنما بننے کا اہل ٹھہرے گا۔ تب جاکر ملک ترقی اور خوشحالی کیلئے قدم آگے بڑھا سکے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: