Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حساب دوستاں

جاویدا قبال

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان آل سعود کے ہونے والے پاکستان کے دورے نے میرے ذہن میں یادوں کے کئی چراغ روشن کردیئے ہیں۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ 2010ء کے آغاز میں اس وقت کی پاکستانی وزیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان مملکت کے دورے پر آئیں۔ ریاض میں ان کی ملاقات اپنے سعودی ہم منصب سے طے تھی۔ میں نے اس ملاقات سے پہلے انہیں سعودی الیکٹرانک میڈیا پر بریفنگ دی اور درخواست کی کہ وہ اپنے ہم منصب سے سعودی ٹیلی ویژن پر اردو خبروں کے آغاز کی التجا کریں۔ ایسا ہی ہوا۔ ملاقات انتہائی کامیاب رہی اور میزبان وزیر نے اپنے نائب کو اردو زبان میں خبروں کے بلیٹن کے اجرا کیلئے حکم صادر کردیا۔ بعد کے چند مہینے فائل مختلف دفاتر سے منظوری حاصل کرتی رہی۔ میرا چونکہ سعودی ذرائع ابلاغ کا تقریباً 3 دہائیوں کا تجربہ تھا اس لئے مجھے اس معاملے کا تعاقب کرنے میں آسانی رہی۔ بالاخر اگست 2011ء کے آغاز میں نائب وزیر اطلاعات عبدالرحمان نے اردو بلیٹن کے آغاز کی ذمہ داری مجھے سونپی اور اس کیلئے مناسب افراد پر مشتمل اپنی ٹیم تشکیل دینے کا کہا۔ اگلا تقریباً ایک ماہ مترجمین اور انائونسرز کا انتخاب ہوا اور سعودی عرب کے قومی دن 23 ستمبر 2011ء کو اردو خبروں کا پہلا بلیٹن سعودی ٹیلی ویژن چینل 2 سے مدینہ منورہ میں نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد نشر ہوا۔ ان دنوں سعودی دارالحکومت کے گورنر موجودہ خادم الحرمین الشریفین سلمان بن عبدالعزیز آل سعود تھے۔ انتہائی فعال شخصیت ہیں۔ 1964ء سے 2011ء تک 47 برس ریاض کے حاکم رہے اور ایک صحرائی قصبے کو کرہ ارض کے حسین ترین شہروں میں سے ایک بنادیا۔ طبیعت میں قابل رشک حد تک بذلہ سنجی ہے۔ صحافیوں سے انتہائی مہربانی کا برتائو کرتے تھے۔ شہر میں ہونے والی اکثر نمائشوں کا افتتاح کرتے اور اپنی زندہ دلی سے تقریب کی جان بنے رہتے۔  ہماری اردو خبروں کے بلیٹن میں ہر روز ان کی مصروفیات کا ذکر ہوتا لیکن ایک اہم عنصر یہ بھی ہوتا کہ گورنر شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کی اہم ملاقاتوں کے دوران ان کا نوجوان بیٹا شہزادہ محمد بن سلمان آل سعود بھی وہاں موجود ہوتا۔ وہ اپنے والد کا مشیر تھا۔ ان ملاقاتوں اور گفت و شنید کے دوران وہ انتہائی خاموشی سے غور سے سب کچھ سنتا رہتا۔ بہت جلد وہ ہم سب کو بھاگئے۔ نوجوان شہزادہ محمد بن سلمان نے ہماری جامعہ الملک سعود سے قانون کی سند حاصل کی جس کے فوراً بعد گورنر نے انہیں اپنا مشیر مقرر کردیا۔ چنانچہ عربی، انگریزی اور اردو کے ہر بلیٹن میں ان کا ذکر ضرور ہوتا۔ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات!!شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے بیٹے کی تعلیم کے دوران ان میں موجود ایک رہنما کا اندازہ کرلیا تھا چنانچہ انہوں نے شہزادہ محمد بن سلمان کی اٹھان اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ میں یہ ذکر کرتا چلوں کہ خادم حرمین شریفین ایک بہت اچھے قاری ہیں۔ ہر شائع ہونے والی نئی کتاب کا مطالعہ ضرور کرتے ہیں اور یہی خاصیت ان کے بیٹوں کو بھی ودیعت ہوئی ہے۔ شہزادہ سلطان بن سلمان بن عبدالعزیز عالم اسلام کے پہلے خلا باز ہیں اور آج کل کمیشن برائے سیاحت و آثار قدیمہ کے چیئرمین ہیں۔ شہزادہ فیصل بن سلمان بن عبدالعزیز نے آکسفورڈ سے بین الاقوامی تعلقات میں ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے۔ کچھ عرصہ عالم عرب کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے سعودی ریسرچ اینڈ مارکیٹنگ گروپ کے چیئرمین رہے۔ آج کل مدینہ منورہ کے گورنر ہیں۔ شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان بن عبدالعزیز وزارت پٹرولیم اور معدنی وسائل کے نائب وزیر ہیں۔ شہزادہ خالد بن سلمان بن عبدالعزیز کو امریکہ میں سفارت سونپی گئی جبکہ شہزادہ ترکی بن سلمان بن عبدالعزیز اپنے اشاعتی ادارے کے چیئرمین رہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کی تربیت کا آغاز 2004ء میں 19 برس کی عمر میں ہوا۔ والد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز 2012ء میں ولی عہد بنے تو بیٹے کے اختیارات میں اضافہ ہوگیا۔ 2015ء میں جب والد سر یر آرائے مملکت ہوئے تو محمد بن سلمان کو وزیر دفاع بنادیا گیا۔ جون 2017ء میں خادم حرمین شریفین نے انہیں ولی عہد مقرر کردیا۔ مملکت سعودی عرب کا اقتدار نوجوان نسل کو منتقل ہورہا تھا۔ شہزادہ محمد بن سلمان نوجوان سعودی نسل کی آنکھوں کا تارا ہیں۔ ایک سعودی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں انہوں نے معاشرے کو تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا اور رفتہ رفتہ اپنے اہداف حاصل کررہے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان کا دیا گیا ویژن 2030ء منصوبہ بھی بین الاقوامی اداروں میں پذیرائی حاصل کرنے کے علاوہ مقامی سعودی آبادی میں بے حد مقبول ہے۔
 اور اب اہم ترین نقطہ! یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت سعودی شہریوں کیلئے قابل اعتماد ترین ملک پاکستان ہے۔ یقینا شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے لڑکپن میں صحرا کی بدن کو پگھلاتی دھوپ میں پاکستانی مزدوروں کو پتھر ڈھوتے، بجری اٹھاتے حسین شاہراہوں اور دیدہ زیب عمارتوں کی تجسیم کرتے دیکھا ہوگا۔ یقینا انہیں احساس ہو گا کہ ان کے وطن کی صناعی کو شکل جمیل دینے میں صرف پاکستانیوں کی محنت شاقہ شامل ہے۔ اسی لیے اپنے عزیز ترین ساتھی وطن کو مشکل میں دیکھ کر وہ آگے بڑھے ہیں۔ ان کی ’’لک ایسٹ‘‘ پالیسی کا آغاز پاکستان سے ہوتا ہے اور ہمارا وطن عزیز ہمیشہ اس فہرست کا آغاز کرے گا۔ حساب دوستاں دردل۔ صرف شہزادہ محمد بن سلمان اور عمران خان جانتے ہیں کہ جب ہمارے وزیراعظم ریاض میں منعقد ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کیلئے گئے تھے اور ولی عہد نے انہیں اپنی گاڑی میں بٹھاکر ڈرائیور کی نشست سنبھالی تھی تو کیا مکالمہ ہوا تھا اور آج بھی کوئی نہیں جانتا کہ جب اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے عمران خان شہزادہ محمد بن سلمان کے ڈرائیور بن کر انہیں وزیراعظم ہاؤس لے جائیں گے تو ولی عہد اس تنہائی کی گفتگو میں اپنا کتنا خزانہ عمران خان کی گود میں انڈیل دیں گے۔رموز مملکت خویش خسرواں دا نند

مزید پڑھیں:- - - - -پاکستان کیخلاف پلان بی!!
 

شیئر: