Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہروں کی دلہن کی عادات

شہزاد اعظم

بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو حقائق پر مبنی تو نہیں ہوتیں مگر انہیں دل و جان سے قبول کیا جاتا ہے جبکہ بعض بالکل حقیقت ہوتی ہیں ، جنہیں دل چاہے یا نہ چاہے ،ماننا پڑتا ہے ۔ پہلی قسم یعنی حقائق پر مبنی نہ ہونے والی باتوں کی ایک مثال ہمارے معاشرے میں جاری و ساری شادی بیاہ کی تقریبات میں شامل رسم ’’ڈھولکی‘‘ ہے ۔ یہ کسی حقیقت پر مبنی نہیں مگر اسے دل سے ، جان سے، آن سے، بان سے ، بناوٹی شان سے ، گٹکے سے یا پان سے سجا سنوار کر پیش کیاجاتا ہے ۔ ’’ڈھولکی‘‘کے حامی نوجوانوں کا کہنا ہے کہ یہ ایسی رسم ہے جس کے دم سے شادی کی تقریبات کا تسلسل قائم ہے کیونکہ یہی وہ موقع ہوتا ہے جب کچھ نئے رشتوں کے قیام کے فیصلے کئے جاتے ہیں اور پھر بعض لوگ جلد ہی ’’اگلی ڈھولکی‘‘کا بندوبست کرنے میں مصروف دکھائی دینے لگتے ہیں۔ہم ایسے کئی ’’ناتجربہ کار جوڑوں‘‘ کو جانتے اور پہچانتے ہیں جنہیں ایک ڈھولکی میں شرکت نے ’’زن و شو‘‘ بنا دیا۔
دوسری قسم کی باتیں وہ ہیں جو حقائق پر مبنی ہوتی ہیںجنہیں دل چاہے اور گاہے نہ بھی چاہے ، دل سے ، جان سے ماننا پڑتا ہے ۔اس قسم کی باتوں کی ایک مثال یہ ہے کہ ہم نے جو بھی سیکھا، اپنے ماسٹروں اور استانیوں، سروں اور مسوں، ٹیچروں اور ٹیوٹروں سے سیکھا۔ ہمارے مدرسین و معلمین کی اسی فوج ظفر موج میںہی ’’مس شکیلہ‘‘ شامل ہیں۔ ہمیں ان ہستیوں نے بہت کچھ سکھایا ۔ ہم جب پیدا ہوئے تو یقین جانئے ہمیں تو اتنی بھی تمیز نہیں تھی کہ ٹھیک طرح سے پانی ہی مانگ لیتے۔ ہم پانی کو بھی ’’مم‘‘ کہا کرتے تھے۔ وہ تو یوں ہوا کہ ماسٹر میراں بخش نے نرسری میں ایک روز ہماری کلاس ’’مائنڈ‘‘ کی ۔ ہم نے کہا کہ ’’سر ! ہمیں ’’مم‘‘ چاہئے‘‘۔ یہ جملہ مکمل ہونے کے بعد ہمیں ’’مم‘‘ تو بعد میں ملا تاہم پہلے زناٹے دار تھپڑ بائیں گال پر رسید ہوا اور ساتھ ہی میرا ںبخش نے فرمایا ’’ابے حیوانِ ناطق! مم نہیں ہوتا، پانی کہتے ہیں پانی۔بس وہ دن سو آج کا دن۔ ہم نے پانی کو پانی کہا، کبھی مم کہہ کر نہیں پکارا۔ہم نے اسی علم اور دانائی کے بل پر یہ بھی سیکھا کہ ہر ملک کی ایک ثقافت ہوتی ہے،یہی نہیں بلکہ ہر ملک کے ہرشہر کی اپنی ثقافت ہوتی ہے ۔ یہی نہیں شہراگر بڑا ہو تو اس کے مختلف حصوں کی اپنی ثقافت ہوتی ہے۔ یہ باتیں بھی ان حقائق کی طرح ہیں جنہیں آپ ماننا چاہیں یا نہ چاہیں، ماننا پڑتا ہے ۔
ہمارے وطن عزیز کے شہروں کی دلہن ’’کراچی‘‘،اس کی عادات منفرد ہیں۔ یہاں کے علاقے، سوسائٹیز، کالونیز اور دیگر رہائشی مقامات اپنی اپنی ثقافت کے امین ہیں۔ ان کی مثال یہ ہے کہ بھینس کالونی کی اپنی ثقافتی روایات ہیں اور گیدڑ کالونی کی اپنی،ڈیفنس کی اپنی روایات ہیں تو کلفٹن کی اپنی،فقیر کالونی کی اپنی روایات ہیں تو مچھر کالونی کی اپنی،  ناظم آباد اپنی ثقافت کا علمبردارہے تو بفر زون کا مزاج اپنا ہے ۔ہم یہ باتیں کسی بنیاد کے بغیر بیان نہیں کر رہے بلکہ 4 روز قبل کا واقعہ نظر نواز کرنے کی جسارت کر رہے ہیں۔ہوا یوں کہ:ہمیں ایک تقریب میں شرکت کرنی تھی جس کے لئے ذرا تقریب کے ہم پلہ قسم کا لباس درکار تھا۔ہم بیٹے کے ساتھ موٹر سائیکل پرمسلط ہو کر اپنے جیسے درمیانے علاقے میں گئے۔ایک دکان کے باہر بیٹھی ادھیڑ عمر ہستی سے ہم نے علیک سلیک کی ۔ اس نے محض جواب دینے کے لئے، با دل ناخواستہ اپنی نشست سے اٹھ کر قریب رکھے گملے تک جانے کی کوشش کی اور گملے کے قریب پہنچنے سے قبل ہی پیک کی پچکاری چھوڑتے ہوئے کہنے لگے، ہاں بڑے’’ صاب!‘‘ کیا’’ چہئے‘‘ آپ کو۔ ہم نے کہا کہ کوٹ چاہئے ۔ اس نے کہا کہ’’انکل‘‘ آپ کے لئے یا آپ کے اس بیٹے کے لئے کیونکہ ہمارے پاس جو کچھ ہے ، سب نوجوانوں کے پہننے کے لئے ہے۔ آپ کی عمر کے لوگوں کے لئے کوئی لباس نہیں۔ہم نے کہا کہ سب سے بڑے سائز کا کوٹ آپ کے پاس کون سا ہے۔جواب ملا ’’بھئے‘‘! خواہ مخواہ کی بحث کر کے اپنا اور میرا ٹائم ضائع کر رہے ہو۔ میں نے بولا ناں کہ آپ کے لئے ہمارے پاس کوئی کوٹ شوٹ نہیں ہے۔ ہم نے کہا کہ کیا آگے کسی دکان پر مل جائے گا؟اس نے کہا کہ ’’ساری مارکیٹ کا میں نے ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا ناں۔ آپ جائو، مارکیٹ گھومو، شاید کسی کے پاس کوئی آپ کے لئے کوئی ’’آئوٹ آف ڈیٹ‘‘ مال مل جائے۔اگلے روز ہم طارق روڈ گئے۔ دکاندار سے کچھ نہیں کہا، اس کی دکان میں داخل ہوئے، اس نے آگے بڑھ کر سلام کیااور کہنے لگا’’جی برادر! فرمائیے؟ ہم نے کہا کہ ذرا کوٹ پسند کر لیں، اس نے جواب دیا بالکل سر!وائے ناٹ۔اگر اس اسمارٹ گائے کے لئے درکار ہے تو اگلے ریک میں دیکھئے گا اور اگر میرے بھائی صاحب نے لینا ہے تو اس کے لئے آپ کے دائیں ہاتھ پر ریک ہے۔ہم نے اس سے کوٹ کی قیمت دریافت کی جو ہم نے دیگر علاقوں میں 4500 روپے دیکھی تھی۔ اب اس نے بیٹے سے کہا کہ آپ کے لئے سوٹ نکالتا ہوں، میری پسند سے ایک خرید لیں، یہ کہہ کر اس نے نیلگوں جامنی رنگ کا کوٹ نکالا اور اس کے اندر بادامی رنگ کی شرٹ رکھ کر کہنے لگا کہ ’’دِس از اکارڈنگ ٹو یوَر اپیئرنس اینڈکمپلیکشنز۔‘‘واقعی، اس نے جوسوٹ ہمارے صاحب زادے کے لئے پسند کیا وہ سبھی کو بے حد پسند آیا۔اب ہم باہر نکلے تو مدینہ مسجد میں نماز مغرب ادا کی۔ نمازیوں کی تعداد اور خشوع دیکھ کر احساس ہو رہا تھا کہ یہ ہے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘۔سڑکوں پر سکون، چہل پہل، کہیں بے جوڑا، کہیں جوڑا، کہیں ساس اور کہیں بہو، سب اپنے اپنے کاموں میں مگن،نہ کوئی چیں چاں نہ کوئی ٹینشن۔ہم نے کہا کہ یہ کیا ہے۔ ہماری باتیں سن کر ایک نوجوان نے کہا کہ یہ ’’تبدیلی‘‘ ہے اور یہ وہ علاقہ ہے جس نے تبدیلی کے لئے بھر پور تعاون کیا ہے۔، یہ ہے اس طارق روڈ کی ثقافت۔کیا خوب ہیں یہ روایات۔

مزید پڑھیں:- -  - - - -احساس ذمہ داری

شیئر: