Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بی جے پی کے حوصلے پست

سید اجمل حسین۔ دہلی
حالیہ اسمبلی انتخابات میں 3 ریاستوں کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعدسے سہمی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے حوصلے اس وقت اور پست ہو گئے جب مختلف ذرائع سے کرائے جانے والے سروے  کے نتائج سامنے آنے لگے ۔ کم و بیش تمام سروے بی جے پی کو مایوس کر رہے ہیں ۔ بی جے پی ہی نہیں بلکہ اس کی قیادت والے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس(این ڈی اے) میں شامل دیگر حلیف پارٹیوں کے بھی ہوش اڑے ہوئے ہیں کیونکہ سروے این ڈی اے کو معمولی اکثریت سے بھی میلوں دور دکھا رہے ہیں جس سے بی جے پی خاص طور پر اس کے صدر امیت شاہ کے لیے، جنہیں انتخابی میدان کا ماہر کھلاڑی سمجھا جاتا تھا، لمحہ فکریہ پیدا ہو گیا ہے ۔ سروے کانگریس قیادت والے یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس( یو پی اے)میں شامل پارٹیوں کے ہی نہیں بلکہ ترنمول کانگریس، تیلگو دیشم ، جنتا دل سیکولراور ڈی ایم کے جیسی غیر بی جے پی پارٹیوں کا بھی گراف تیزی سے بڑھتا بتارہے ہیں جس سے امیت شاہ کی مشکلات اور بڑھ گئیں۔ یہ امیت شاہ ہی تھے جن کی انتخابی سوجھ بوجھ اور حکمت عملی کی بنا پرانہیں 2014کے عام انتخابات سے قبل بی جے پی کا جنرل سکریٹری اور اترپردیش کا انچارج مقرر کیا گیا تھا۔ اس کا نتیجہ اظہر من الشمس ہے کہ اترپردیش میں بی جے پی تمام موجوہ ہ و سابق حکمراں جماعتوں کو قعر مذلت میں دھکیل کر لوک سبھا میں شاہانہ انداز میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اس بے نظیر کامیابی کے صلہ میں امیت شاہ کو ترقی دے کر پارٹی کا قومی صدر بنادیا گیاجس کے بعد پارٹی نے اسی سال ہونے والے مہاراشٹر، ہریانہ، جھارکھنڈ اور جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات میں بھی کامیابی حاصل کی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا بی جے پی کی فتوحات پر نظر لگنے لگی جس کا آغاز بہار اور دہلی سے ہوا ۔جیت کا گراف بتدریج گرتا گیا ۔نوبت بہ اینجا رسید کہ2016میں 5 اسمبلی انتخابات میں صرف ایک میں ہی جیت مل سکی۔اگرچہ2017میں 7 میں سے 6 ریاستوں میں کامیابی حاصل کر کے اس نے اپنا کھویا مقام کچھ حد تک حاصل تو کیا لیکن گجرات میں اقتدار میں واپسی کے لیے اسے جتنے پاپڑ بیلنے پڑے اس سے بی جے پی کو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ اب وہ دن لد گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ وہ182رکنی اسمبلی میں بدقت تمام 99سیٹیں ہی جیت سکی تھی یہی نہیں بلکہ موربی ، امریلی اور گیر سومناتھ میں تو اس کا کھاتہ تک نہیں کھل پایا۔ 2018میں چھتیس گڑھ،راجستھان اور مدھیہ پردیش کیا ہاتھ سے نکلا  بی جے پی کے صدر امیت شاہ کے ہاتھوں کے طوطے بھی اڑگئے۔اسی دوران لالو یادو کا کانگریس سے اتحاد اور بی جے پی کے اونچی ذات کے لوگوں کے لیے ریزویشن کے باعث نتیش کمار و بی جے پی نواز ووٹروں کے ایک بڑ ے طبقہ کی ان دونوں پارٹیوں سے ناراضی اور دوری کے جھٹکے سے بی جے پی ابھی سنبھلی بھی نہیںتھی کہ اترپردیش میں جہاں 2014میں بی جے پی کو نئی زندگی  ملی تھی مایا وتی اور اکھلیش یادو کی پارٹیوں میں انتخابی سمجھوتے نے ایسازبردست جھٹکا دیا کہ اسے آئندہ50سال تو دور کی بات اپنے اقتدار کی میعاد میں 5 سال کی توسیع بھی جوئے شیر لانے جیسی محسوس ہونے لگی۔ ان دونوں کے اتحاد سے سب سے پہلا پیغام یہ ملا کہ اس اتحاد سے مودی کابینہ کے 11میں سے 7 وزیروں پر شکست کے بادل منڈلانے لگے ہیں ۔ علاوہ ازیں پے درپے کچھ ایسے واقعات پیش آنے لگے کہ 2014کی انتخابی تقریروں اور اس میں کیے گئے وعدے وعید اور دعوؤں نے اس کا تعاقب شروع کر دیا۔ان حالات میں اب بی جے پی کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ اب مودی اور امیت سے آگے بڑھ کر کچھ سوچے۔ پارٹی کے منصوبہ سازوں نے انتخابی حکمت عملی وضع کرنے سے پہلے پارٹی کے بڑوں کا سہار الینے کا فیصلہ کیاتاکہ ا ن لیڈروں کے چاہنے والے ان کی عزت کی خاطر بی جے پی کی حمایت پر کھل کر آجائیں اور پارٹی کی اقتدار میں واپسی یقینی ہو جائے۔اس لیے 91سالہ لال کشن اڈوانی ،84سالہ مرلی منوہر جوشی،85سالہ شانتا کمار77سالہ کلراج مشرا اور77سالہ بھگت سنگھ کوشیاری کو بھی میدان میں اتارا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی کے آقاؤں نے ان میں سے ٹاپ 2 اڈوانی اور جوشی کے نام کی تو توثیق بھی کر دی ہے۔ اگرچہ  ابھی اس پر حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے لیکن مارچ میں ہونے والے پارٹی کی سینٹرل الیکشن کمیٹی کے اجلاس میں ان تمام ضعیف العمر لیڈروں کو انتخابی میدان میں اتارنے کا حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔اڈونی کو تو ان کے دائمی انتخابی حلقہ گاندھی نگر سے میدان میں اتارنے کا فیصلہ کرنا پارٹی کی اس لیے بھی مجبوری ہے کہ 2017کے اسمبلی انتخابات میں اڈوانی کا حلقہ ہی ایسا تھا جہاں سے بی جے پی کو شاندار کامیابی ملی تھی ۔وہاں اس نے 7 میں سے 5 سیٹیں جیتی تھیں۔مرلی منوہر جوشی کی مقبولیت سے بی جے پی واقف ہے ۔انہوں نے اپنے زیادہ تر الیکشن الہٰ آباد یا وارانسی سے ہی جیتے ہیں ۔اس وقت صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ اقتدار میں واپسی کے لیے اب ان تمام سینئر لیڈروں کی مقبولیت کو کیش کرنا  بی جے پی کی مجبوری بن گئی ہے۔اس کے باوجود اگر بی جے پی قطعی اکثریت حاصل نہیں کر سکی لیکن سب سے بڑی واحدپارٹی بن کر ابھرنے میں کامیاب ہو گئی تو وزارت عظمیٰ کے لیے پارٹی گروہ بندی کا شکار ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ اب اس عہدے کے مضبوط دعویداروں میں لال کشن اڈوانی (مختصر مدت کے لیے ہی سہی)،راجناتھ سنگھ اور نتن گڈکری بھی مودی کو چیلنج کر سکتے ہیں۔اور مودی امیت جوڑی کو اس صورت حال سے بچنے کے لیے ہی 2019جیتنے کے لیے اپنی تمام تر طاقت کو برئے کار لانا ہوگا ورنہ دونوں کو شاید گجرات واپسی پر ہی مجبور نہ ہونا پڑے۔
مزید پڑھیں:- - -  -سائنسی تحقیق کیلئے مغرب ہے نا

شیئر: