Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سفیرِ پاکستان

جاوید اقبال

میں عزت مآب شہزادہ محمد بن سلمان آل سعود کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ ہرگز خسارے میں نہیں رہیں گے۔ اپنی مملکت سعودی عرب میں اپنے پاکستان کی سفارت سنبھالنا ان کیلئے انتہائی باعث افتخار ہوگا۔ جب اسلام آباد کے وزیراعظم ہائوس میں پاک سعودی معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہونے کی تقریب میں وہ اپنے میزبان کے ساتھ مسلسل سرگوشیوں میں مشاورت کرتے رہے تھے تو مجھے اپنے مملکت میں قیام کے دوران مختلف اوقات پر وقوع پذیر ہونے والے واقعات یاد آگئے۔
پہلا واقعہ کوئی 8 برس پیشتر کا تھا۔ ان دنوں مملکت کے ایک ہمسایہ افریقی ملک سے آئی افرادی قوت بے لگام ہوتی جارہی تھی۔ اکثر کے مکتب العمل سے جاری کیے گئے اجازت ناموں کی تاریخ صلاحیت اختتام پذیر ہوچکی تھی اور بیشتر اپنے کفیلوں سے فرار اختیار کرچکے تھے۔ غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکات کا بھی ارتکاب کرتے تھے۔ نتیجتاً وہ پولیس کو بھی مطلوب رہتے تھے۔ ایک دن ریاض شہر کے جنوبی حصے میں شور اٹھا۔ ایک عمارت ان افریقیوں نے کرائے پر لے رکھی تھی۔ پولیس کو خبر ملی کہ اس میں متعدد غیر قانونی لوگ رہائش پذیر تھے چنانچہ قانون کے ان محافظوں کی گاڑیاں عمارت کے صدر دروازے پر جاکھڑی ہوئیں۔ اندر کہرام مچ گیا اور آناً فاناً افریقی کلاشنکوفیں سنبھالے صحن میں آگئے۔ گولیوں کی آوازوں سے ماحول گونج اٹھا۔ پولیس ٹھٹھک کر باہر رک گئی۔ اندر والوں نے صحن میں ہی نشستیں بنالیں۔ ہاتھوں میں اسلحہ تھا، کون نزدیک جاتا۔ یوں ہی کوئی ایک گھنٹہ گزر گیا۔ پھر اچانک مکان کے عقب سے چند لوگ خاموشی سے چھت پر پہنچے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھے۔ اسلحہ بردار افریقیوں کی توجہ صدر دروازے کی طرف تھی اور پھر چھت پر پہنچے لوگوں نے نیچے بیٹھے مجرموں پر چھلانگیں لگادیں۔ اس سے پہلے کہ وہ سنبھلتے اسلحہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور اوپر سے آئے کچھ لوگوں نے انہیں قابو کیا اور اٹھائے بغیر پولیس کے قدموں میں لاپھینکا۔ یہ سب پشاور کے پٹھان تھے جنہوں نے انتہائی مہارت اور چابکدستی سے صورتحال پر قابو پالیا تھا۔ اس رات سعودی سوشل میڈیا پاکستانیوں کی تعریف میں رطب اللسان رہا تھا۔ دوسرا واقعہ جدہ میں پیش آیا تھا۔ سیلاب زبردست تھا۔ گاڑیوں کو بہائے لیے جاتا تھا۔ ایسے میں سعودی شہری بھی تند و تیز موجوں کا مقابلہ نہ کرسکے اور متعدد کے قدم اکھڑ گئے۔ کنارے پر ایک کریانہ فروش فرمان علی سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ تلاطم خیز موجوں میں بہتے، مدد کیلئے پکارتے ایک سعودی شہری کو دیکھا تو اس نے پانی میں چھلانگ لگادی۔ اس نوجوان نے 6 افراد کو موت کے منہ سے نکالا لیکن پھر جب ساتویں کو بچانے کیلئے اس نے ایک بار پھر اپنا بدن لہروں پر ڈالا تو اس کے عضلات تھکاوٹ سے شل ہوچکے تھے۔ اس نے بے چارگی سے واپسی کی کوشش کی۔ فرمان علی کا بدن لہروں میں غائب ہوگیا۔ 6 افراد کو زندگی کی ضمانت مہیا کرنے والا خود ہار گیا تھا۔ سعودی شہریوں نے اسے قابل رشک خراج تحسین پیش کیا اور شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے سوات میں مقیم اس کے خاندان کو بلا معاوضہ حج کرانے کے احکامات جاری کیے۔ فرمان کی سعودی بھائیوں کیلئے دی گئی اس قربانی کے اعتراف میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس کے قصبے میں ایک اسپتال قائم کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ یہ عمارت بہت جلد تعمیر ہوجائے گی۔ تیسرا واقعہ تو نہیں البتہ ایک قصبہ ہے۔ کوئی 2 برس قبل میری گاڑی میں کچھ خرابی پیدا ہوگئی۔ میں سفید ریش بوڑھے ڈرائیور کی گاڑی میں بیٹھا ۔ پٹھان تھا۔ گفتگو چلی تو اس نے کہا کہ اس کا تعلق تو پشاور سے تھا تاہم سعودی حکومت نے اسے مستقل رہائش دے رکھی تھی۔ تفصیل پوچھنے پر اس نے بتایا کہ ایک دن چند سعودی طالبات اس کی ٹیکسی میں سوار ہوئیں۔ جب اس نے حرکت کی تو 2 گاڑیوں نے اس کے گرد چکر لگا کر اسے تنگ کرنا شروع کردیا۔ طالبات نے اسے بتایا کہ وہ چند آوارہ نوجوان تھے جو مسلسل انہیں پریشان کرتے رہتے تھے۔ پٹھان ڈرائیور نے بہت کوشش کی کہ ان دونوں گاڑیوں سے بچ کر رستہ بنالے لیکن ان نوجوانوں نے اس کا چلنا محال کردیا۔ تب اس نے ٹیکسی روکی اور ان نوجوانوں کی منت سماجت کی کہ اسے رستہ دیا جائے لیکن وہ گستاخی پر اتر آئے۔ بوڑھے پٹھان کا دماغ گھوم گیا اور اس نے ان نصف درجن نوجوانوں کی اچھی خاصی دھنائی کردی۔ پولیس آئی۔ طالبات نے بھی بیان دے دیے۔ مقدمہ عدالت میں گیا اور خبر قصرالحکم میں گورنر شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز تک بھی پہنچی۔ پٹنے والے نوجوان بااثر تھے۔ 60 سالہ پٹھان ڈرائیور کی طلبی ہوئی اور اس نے سارا واقعہ حاکم شہر کو بلا کم و کاست بیان کردیا۔ فیصلہ فوراً صادر ہوا۔گستاخ نوجوانوں کو ایک ایک ماہ کی جیل اور ضعیف ڈرائیور کیلئے مملکت میں مستقل رہائش، شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے فرمایا کہ ان کے وطن کو ایسے ہی دلیر پاکستانیوں کی ضرورت ہے جو اپنے میزبان ملک کی عزتوں کے محافظ بنے رہیں۔ تو عزت مآب شہزادہ محمد بن سلمان آل سعود کو اپنی مملکت میں اپنے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سفیر کے طور پر تقرری مبارک ہو! وہ اس ملک کیلئے سفارت کاری کریں گے جس کے شہری اپنی جانیں ہتھیلیوں پر رکھے اپنے سعودی بھائیوں اور بہنوں کی زندگیوں اور حرمت کے محافظ ہوں گے۔ عزت مآب اس ملک کے سفیر ہوں گے جس کی فوج آج دنیا کی بہترین عسکری قوت ہے اور جو اقوام متحدہ کی امن فوج کا ایک بڑا حصہ بن کر کرہ ارض پر سے فساد اور دہشت گردی کا قلع قمع کررہی ہے اور جس کے فوجی جوانوں اور افسروں کے نام پر افریقی ممالک میں مساجد اور مدرسے تعمیر کیے جارہے ہیں۔ عزت مآب کو اس تقرری پر تہہ دل سے مبارکباد!!
 

شیئر: