Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چھو ٹی کی شادی سے بڑی کےلئے رشتوں کا دروازہ بند کیوں؟

یہ سوال اذیت ناک ہوتا کہ چھوٹی کی شادی اس سے پہلے کیوں ہو گئی ؟اس طرح اسے بڑی عمر کے ہونے کا طعنہ سننا پڑتا
تسنیم امجد ۔ریا ض
رقیہ نے گریجویشن کے بعد ما سٹرز میں دا خلہ لیا ۔تمام دو ستوں کو فون پراپنی کا میابی کی خبر سنائی کہ ابا میاں آخر مان گئے ۔اس کی ضد کے آگے انہوں نے ہتھیار ڈال ہی دئیے۔اب وہ یو نیورسٹی لائف اور سہیلیوں کے جھر مٹ میں بہت خوش تھی۔ خوشگوار زندگی کی حرارت جسم و جان پر ایسی سر شاری رکھتی ہے کہ وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہیں ہو تا ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پھولوں کی راہگزر ہے اور ہم ا ڑے جا رہے ہیں اس کا رشتہ ما موں زاد ،فاروق ،سے طے ہو چکا تھا۔وہ جر منی میں تھا۔ایک دن اچانک ممانی نے بتایا کہ فاروق آرہا ہے ۔سبھی بہت خوش تھے لیکن رقیہ پریشان ہو گئی ۔اسے ممانی کی باتوں سے اندازہ ہوگیا کہ وہ اس کی شادی کرنا چا ہتی ہیں ۔وہی ہوا جس کا اسے دھڑکا تھا۔ ۔فاروق کا ہدف یہی تھا کہ وہ بیاہ رچا کر دلہن کو ساتھ لے جائے ۔رقیہ کے والدین بھی راضی ہو گئے لیکن رقیہ بضد ہوئی کہ وہ ایم اے کے بعد ہی شادی کرے گی ۔اسے منانا بہت مشکل ہو رہا تھا چنانچہ اس مرتبہ بھی والدین نے ہتھیار ڈال دئیے اور طے یہ پایا کہ رقیہ کی بجائے چھو ٹی قد سیہ کی شادی فاروق سے کر دی جائے ۔ والدین نے سوچا کہ وہ ایک فرض سے سبکدوش ہو جائیں ۔رقیہ کو اس فیصلے سے با لکل ملال نہ ہوا ۔اس پر تعلیم کا بھوت سوار تھا ۔شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔قد سیہ نے آ پا کو سمجھایا کہ وہ با قی کی تعلیم جر منی جا کر مکمل کر لے تاکہ وہ تو اپنی گریجویشن مکمل کر لے ۔والدین کی خوشنودی کی خاطر میں خاموش ہو گئی ہوں ورنہ میں بھی پڑ ھنا چا ہتی ہوں ۔رقیہ پر بالکل ا ثر نہ ہوا۔اور قدسیہ بیاہ کر چند ہی دن بعد جر منی چلی گئی۔
ما سٹرز کے بعد اس نے ملازمت کرنا چا ہی تو والدین نے سختی سے روک دیا ۔اس کے لئے رشتے آ نے لگے ۔با توں با توں میں اس کے لئے یہ سوال اذیت ناک ہوتا کہ چھوٹی کی شادی اس سے پہلے کیوں ہو گئی ؟اس طرح اسے بڑی عمر کے ہونے کا طعنہ سننا پڑتا ۔اب ایسا وقت بھی آچکا تھا کہ اس کے لئے رنڈوے یا دوسری شادی کے خواہشمند وں کے رشتے آ نے لگے ۔رقیہ کو احساس ہی نہ تھا کہ اسے یہ وقت بھی دیکھنا پڑے گا ۔وہ خود کو مجرم سمجھنے لگی ۔اسے یہ احساس شدت سے ہونے لگا کہ اس کی وجہ سے والدین تکلیف میں ہیں ۔والدین نے اسے ملازمت کی اجا زت دے دی اور وہ کراچی سے حیدرآباد ویمن کالج چلی گئی ۔وہ کالج پرائیویٹ تھا اس لئے تبدیلی نہ ہوئی ۔اس کے اچھے کام کی وجہ سے اسے پانچ برس بعد ہی پر نسپل بنا دیا گیا ۔تنہائی اسے کا ٹتی۔چھٹیوں میں والدین کے پاس چلی آتی۔ان کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھتی۔اسے شدت سے احساس تھا کہ اس کی وجہ سے وہ دکھی ہیں ۔اماں سے کالج کی خوب با تیں کرتی تاکہ وہ اسے بہت مطمئن جا نیں ۔
اسے اپنی سہیلیاں یاد آ تیں جو سب بیاہی جا چکی تھیں ۔وہ جا نتی تھی کہ اپنی زندگی بر باد کرنے کی وہ خود ہی ذمہ دار ہے ۔اس کے پاس پچھتاوے کے سوا کچھ نہ تھا ۔اس نے قدسیہ سے بھی رابطہ نہ رکھا ۔اس نے جر منی سے ہی ڈا کٹریٹ کی تعلیم مکمل کر لی تھی ۔اسے اس کے الفاظ یاد آتے کہ آپا وہاں تعلیم مکمل کر لینا ۔وہ بکھر گئی تھی ۔یوں کہ دن بھر وہ کام میں خود کو چنتی رہتی لیکن گھر آتے ہی بکھر جاتی،
اک عمر گزر آئی تو محسوس ہوا ہے
اس طرح تو جینے کا ارادہ ہی نہیں تھا
قارئین ! ہمارے معاشرے میں چھو ٹی کی شادی ،بڑی کے لئے رشتوں کا دروازہ بند کر دیتی ہے اور وہ حسرت و یاس کی تصویر بنے بابل پر خود کو بوجھ سمجھتی ہے ۔اکثر بڑی اور چھو ٹی کی عمروں میں فرق بھی بہت کم ہوتا ہے لیکن پھر بھی لوگ سمجھتے نہیں ۔اب تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لڑ کے والے تعلیم یا فتہ لڑ کی بھی چا ہتے ہیں لیکن ساتھ ہی اس کی عمر بھی کم ہو ۔جتنی عمر وہ سو چتے ہیں اتنی تو نا ممکن ہو تی ہے ۔اس ر حجان کو کس طر ح ختم کیا جائے ؟ اس کا جواب صرف دینِ اسلام میں ہے ۔معاشرتی روش نہ بدلنے کی صورت میں والدین اور لڑ کیوں کو خود ہی شعور سے کام لینا ہو گا ۔لڑ کیاں عمر میں خواہ چھو ٹی ہی کیوں نہ ہوں ان پر بڑی ہونے کا ٹھپہ لگ جائے تو زندگی روگ بنا دی جاتی ہے ۔وہ حالات سے فرار کے راستے تلاش کرتی ہے اور پھر آنکھیں بند کر کے اپنی خواہشوں کو دبا کر کسی بڑے میاں کو ہی جیون سا تھی بنا لیتی ہے ۔لوگوں کی زبا نیں بند ہو جاتی ہیں لیکن اس کی زندگی کو ایک اور روگ لگ جاتا ہے ،وہ زندہ درگور ہو جاتی ہے ۔
معاشرتی مسائل ہمارے گرد بکھرے ہوئے ہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی مسائل سے عبارت ہے ۔رشتوں کی جوڑ توڑ کے مسائل پر قلم اٹھائے گئے ۔ہم نے گو کہ بظاہر عورت کے سلسلے میں فراخدلی اپنا رکھی ہے لیکن عملی طور پر ہم چو دہ سو سال پہلے والا ہی مزاج رکھتے ہیں ۔اس کو آ زادی دینے والے خود اس کو کم تر سمجھتے ہیں ۔اسے عزت و احترام دی گئی لیکن جب چاہا چھین بھی لی گئی ۔جلی کٹی سننا اس کے مقدر میں ہے یہ لا شعور میں چھپی نفرت ہی ہے جس سے اسے مختلف انداز میں نیچا دکھایا جاتا ہے۔کبھی بڑی اور کبھی چھو ٹی ہونے کے طعنے اس کا مقدر بن جاتے ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ہمارے دلوں میں اسلام کے اعلی ا صول کہیں دبا دئیے گئے ہیں ۔ دوسروں کی خو شیاں چھین کر اپنے آ نگن کو ان سے بھرنے کا لالچ زور پکڑ گیا ہے ۔شادی بیاہ کے معاملات میں کہیں لڑکی قصور وار ہوتی ہے اور کہیں لڑ کا ۔ہمیں اپنی لڑ کیوں کی تر بیت میں بچپن سے ہی اس کے پرائے ہونے اور مستقبل کی ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہونے کا ا حساس ڈال دینا چا ہئے ۔ شعور،ادراک اور آ گہی کا بیج بونا ضروری ہے ۔یہی ہماری ریت ہے اور حکم ربی بھی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: