Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’جھوٹ نہیں، سچ‘‘

شہزاد اعظم
ہم جب تک مس شکیلہ کے زیر سایہ تعلیم حاصل کرتے رہے ، اس وقت تک ہمیں صرف یہی باور کرایا جاتا رہا کہ جھوٹ بولو گے تو ایسی لترول ہوگی کہ دنیا یادکرے گی اور بدنامی الگ ہوگی۔ اگرسچ بولو گے توکچھ بھی نہیں کہا جائے گابلکہ تعریف کی جائے گی چنانچہ مس شکیلہ کی ’’تدریسی سلطنت‘‘ میں ہم سچ بولتے رہے، سچ لکھتے رہے، ہمیں عزت ملتی رہی اور ہم پھولتے پھلتے رہے ۔بعد میں ہم حصول تعلیم کے لئے ’’مردانہ نرغے‘‘ میں آگئے۔ سر نسیم، سر جیمس، سر بشیر، سر لوئس ہمارے سرکردہ استاد قرار پائے ۔ اب ہمیں یہ باور کرایاجانے لگا کہ سچ بولو گے تو ایسی لترول ہوگی کہ دنیا یاد رکھے گی، کوئی تمہاری بات کا یقین نہیں کرے گا، لوگ مذاق الگ اڑائیں گے ،پھریہ ہوا کہ ہم جھوٹ سنتے، جھوٹ بولتے، جھوٹ تولتے اور جھوٹ زندگی میں گھولتے رہے مثلاًہمیں بتایا گیا کہ ملک میںجمہوری نظام متعارف کرایاجا رہا ہے ، جس کے تحت انتخابات ہوں گے، انتخابی امیدوار آپ کے علاقے میں آئیں گے، جلسے کریں گے، اپنا منشور آپ کے سامنے رکھیں گے ، آپ ان میں سے جنہیں بہتر سمجھیں ، انہیں اپنے لئے منتخب کریں۔وہ اسمبلی میں جا کر آپ کیلئے ،آپ کی امنگوں کے مطابق قوانین وضع کریں گے اور ملک ترقی کی شاہراہ پر منہ زور گھوڑے کی طرح سرپٹ دوڑنے لگے گا، تعلیم و صحت عام ہوگی، مہنگائی کا جن بوتل میں بند ہوگا ۔پھر یوں ہوا کہ ’’اُمیدواران ‘‘آئے۔ انہوں نے قسمیں کھائیں، وعدے کئے،ووٹ بٹورے، اسمبلی پہنچے،وزارتیں لیں، نوٹ کمائے،بیرون ملک کے دورے کئے ، گل چھرے اڑائے۔ انجام کار ملکی ترقی کا گھوڑا سرپٹ دوڑنے کی بجائے ’’کیٹ واک ‘‘ کرنے لگا ۔مہنگائی کا جن ’’دہشتگرد‘‘ بن گیا، اس نے بوتل سے نکل کر عوام کو بھی بوتل میں ٹھونسنا شروع کر دیا۔اسی عرصے میں معلوم ہوا کہ 5سال کا عرصہ بیت چکا ہے ۔اب ایوانوں میں عیش کرنے کے لئے نئے لوگوں کو موقع دیاجائے گا۔بہر حال انتخابات مکمل ہوئے ، لوگ پریشان ہی رہے ۔ مہنگائی بڑھتی گئی،ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار رہنے لگی مگر بااختیار صاحبان ’’جھوٹ ‘‘بولنے کی ’’روایت ‘‘ کی پاسبانی کرتے رہے ۔یہ سلسلہ 30سال چلتا رہا ۔آلو، پیاز، ٹماٹر، دالیں ، عام انسان کی دسترس سے باہر ہوتی گئیں۔پھل اتنے مہنگے ہوگئے کہ غریب لوگوں نے کھانا ہی چھوڑ دیئے۔ ہم کشکول لے کر بیرون ملک پہنچ جاتے اور سیلاب زدگان کے نام پر امدادی ڈالر وغیرہ جمع کرکے اپنا اُلو شُلو سیدھا کر لیتے۔ دوسری جانب ملک کے ڈیم خالی پڑے رہتے ۔ نئے ڈیم بنانے کا ارادہ کیاجاتا تو ’’زمین زادے‘‘ دھمکیاں دیتے کہ یہ ڈیم ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی بنے گا۔ہم ٹرینوں میں جاتے تو جا بجا خطرات موجود ہوتے، پٹریاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتیں، ہرٹرین 2سے 5گھنٹے لیٹ ہونا اپنا جبلی حق سمجھتی ۔کھلے پھاٹک سے گزرنے والی ٹرین کسی رکشہ سے ٹکرا جاتی تو درجنوں افراد جاں بحق ہو جاتے۔مہنگائی کا عالم یہ ہوا کہ وہ کینو جو ہم 20روپے کے 12 خریدتے تھے، اب 20روپے کا ایک میسر تھا۔ اسی دوران دودھ بھی 8سے80روپے کلو کی جانب گامزن ہو گیا۔شہر کراچی میں’’بوری بند مقتولین ‘‘ کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ 2018ء میں پھر کہاگیا کہ انتخابات ہوں گے،امیدوار جلسے شلسے کریں گے، لوگوں کو مستقبل کے سنہرے خواب دکھائیں گے، عوام اپنے لئے پسندیدہ نمائندے چنیں گے ، نیا ایوان وجود میں آئے گا، نئی حکومت بنے گی۔ پھر ایسا ہی ہوا۔امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا،لوگوں نے ووٹ کے ذریعے پسندیدہ امیدواروں کو منتخب کیا مگر باقی سب کچھ ویسا نہیں ہوا جیسا ہوتا آیا تھا۔ اب ہم نے ٹرین میںکراچی سے لاہورکا سفر کیا تو حیدرآباد اور روہڑی تک ٹرین تقریباً3گھنٹے لیٹ تھی،لاہور پہنچی تو اپنے وقت پر، ہم حیران رہ گئے اور پریشانی میں دانتوں سے ناخن کاٹنے لگے۔ اسٹیشن پر قلی سے سامان اٹھوانے لگے تو سوچا کہ جتنا سامان ہے ، اس کے حساب سے1000 روپے توٹھیک ہیں، اگر اس سے زیادہ مانگے تو ہم اسے وہ سنائیں گے کہ نانی یاد آجائے گی۔ ہم نے جب اس سے ’’مشقتانہ‘‘ دریافت کیا تو اس نے کہا بھائی جان غصہ نہ کرنا، سامان زیادہ ہے ، بس 400روپے دے دینا۔ ہم نے پریشان ہو کر دانتوںسے انگلیوں کے ناخن مزید گہرائی سے پھر کترنا شروع کر دیئے۔ لاہور پہنچے تو بارش ہوئی۔ معلوم ہوا کہ گندم کی فصل کے لئے یہ بارش انتہائی قیمتی ہے جو کئی برس بعد اس موقع پر ہوئی ہے ۔ چند روز کے بعد خبر ملی کہ عرصہ دراز کے بعد بلوچستان کے ڈیم پانی سے لبالب بھر گئے حتیٰ کہ اسپل وے کھولنا پڑے۔ہم ترکاری لینے کے لئے بازار گئے آلو خریدنے لگے، نرخ دریافت کئے تو اس نے آلو، ٹماٹر اور پیاز تینوں کی جانب اشارہ کر کے بتایا کہ 1000 روپے کے 50کلو۔ہم نے پریشانی میں انگلیوں کے ناخن مزید گہرائی سے کاٹنا شروع کر دیئے۔ اب ہم گوشت کی دکانوں پر گئے ۔ وہاں دیکھا کہ ہر گائے کے دھڑ کے ساتھ سر موجود ہے ۔ ہم نے کہا کہ یہ کیا وتیرہ ہے ؟ دکاندار نے کہا کہ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ گوشت گائے کا ہی ہے  نیز یہ کہ’’ دورِ گدھاگدھی‘‘ گزر چکا۔ہم نے انتہائی پریشانی میں اپنے دانتوں سے ناخن اس گہرائی سے کاٹے کہ انگلی ہی کاٹ لی اور ساتھ ہی منہ سے آواز نکلی کہ کیا یہی تبدیلی ہے؟ہماری یہ کیفیت دیکھ کر  اور جملہ سن کرپاس ہی کھڑے ایک صاحب فرمانے لگے کہ یہ تبدیلی نہیں، اس کا نقطۂ آغاز ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ کو ایک ایسا حکمراں مل گیا ہے جو کم از کم جھوٹ نہیں بولتا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ابھی تو ’’مضمونِ پاکستان‘‘ کی صرف شہ سرخی بدلی ہے کہ ’’جھوٹ نہیں، سچ‘‘،ابھی اس مضمون کا متن بدلا جائے گا تو دنیا مانے گی کہ واقعی یہ ہے تبدیلی۔
مزید پڑھیں:- - -  -مملکت اور پاکستان بامقصد تعاون کی شاہراہ پر

شیئر:

متعلقہ خبریں