Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کے سامنے بیجنگ اور واشنگٹن

عبدالرحمن الراشد ۔ الشر ق الاوسط
مجھے سچ مچ یہ بات نہیں پتہ کہ کیا میں سعودی حکومت کی نئی پالیسی کے تحت چینی زبان سیکھنا چاہتا ہوں یا نہیں۔ سعودی حکومت نے حال ہی میں چین کے ساتھ اقتصادی دین کی تقویت کیلئے اپنے اسکولوں میں چینی زبان کا مضمون مقرر کیا ہے البتہ یہ بات یقینی ہے کہ مشرق کا رخ سعودی عرب کےلئے اختیاری راستہ نہیں بلکہ یہ اسکی ضرورت ہے۔ تجارتی اعتبار سے بڑی مارکیٹ حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل بیشتر ممالک کےلئے یہی نوشتہ تقدیر بن چکا ہے۔
اب تک یہی دعویٰ کیا جارہا تھا کہ سعودی عرب مغرب سے مشرق کی جانب بھاگ رہا ہے۔ چین کی منڈیوں کا رخ کرنا یا سعودی عرب میں چینی سرمایہ کاروں اور ان کے سامان کیلئے اوپن مارکیٹوں کے دروازے کھولنا مغرب اور اسکی منڈیو ںکا متبادل نہیں۔ یہ سیاسی منصوبہ بھی نہیں۔ یہ کوئی عارضی سوچ بھی نہیں۔ مسئلہ صرف اتنا ہے کہ سعودی عرب کو متبادل نہیں بلکہ مزید منڈیوں کی ضرورت ہے۔ دیگر منڈیاں ایسی نہیں جو لاکھوں بیرل تیل اور پیٹرو ل مصنوعات خرچ کرنے پر چین اور ہندوستان جیسی قدرت رکھتی ہوں۔مغربی منڈیاں آسودہ ہیں۔ایشیائی منڈیوں کے مقابلے میں زیادہ مہنگی ہیں۔ اگر آپ مشرقی منڈیوں ہی سے معاملات کرنے کے خواہشمند بھی ہوں تب بھی سعودی عرب جیسا ملک امریکی اور یورپی منڈیوں سے بے نیازنہیں ہوسکتا۔ وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب وہاں طویل المیعاد سرمایہ لگائے ہوئے ہے۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما تاریخ کی گردش کے حوالے سے بڑی صحیح رائے دے گئے ہیں۔ انکا خیال تھا کہ امریکہ کو بحر الکاہل کے راستے چین کا رخ کرنا ہوگا۔ اسے بحر اٹلانٹک کے راستے یورپی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کی روایتی منڈیوں او راتحادیوں پر اکتفا کرنے کے بجائے مغرب میں بحر الکاہل کے راستے چین پر توجہ دینا ہوگی۔
سعودی عرب مغرب کاقدیم اور روایتی اتحادی ہے۔ یہ اپنے تعلقات اور کردار کے حوالے سے غیر متزلزل پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔ سعود ی عرب اس دنیا کے ساتھ انتہائی محتاط شکل میں معاملات کررہا ہے۔ خصوصاً 2 عشروں سے تبدیلی آرہی ہے۔ امریکہ، سعودی عرب سے تیل درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک تھا۔ اب صورتحال بدل گئی ہے۔ امریکہ اب تیل درآمد کرنے کے بجائے برآمد کرنے لگا ہے۔ اوپیک ممالک کا حریف بن گیا ہے۔ ماضی میں دنیا آسان تھی۔2بڑی طاقتوں میں منقسم تھی۔ ریاض، واشنگٹن کے ساتھ منسلک رہا۔ سوویت یونین کے سقوط تک مملکت اسی پالیسی پر عمل پیرا رہی۔
اب ہم نئے دور میں ہیں۔ بدلتی ہوئی تاریخ کے الگ ضابطے ہیں۔ مغرب کیساتھ تعلق اہم تھا ہے اور رہیگا۔ یہ اشیاءدرآمد اور برآمد کرنے والی اہم منڈی تھا ، ہے اور رہیگا۔ یہ موثر سیاسی اتحاد ماضی کی طرح مستقبل میں بھی ہوگا البتہ سیاستدانوں کے سامنے منڈیوں کے ساتھ تعلقات بنانے کے سلسلے میں ایک میدان ہوتا ہے جسے ملک کے حکمراں اپنی اسٹراٹیجک پالیسی کے مفاد میں استعمال کرتے ہیں۔
گزشتہ عرصے کے دوران سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کے محرکات تبدیل ہوئے۔اقتصادی اور سرمایہ کاری کے عناصر میں ماضی کے مقابلے میں اضافہ ہوا۔ یہی عناصر اب سعودی عرب کو چین او رہندوستان وغیرہ ممالک کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ قربت کے محرکات سیاسی نہیں بلکہ سعودی عرب کی پیداواری توانائیوں پر مبنی اعلانیہ بھاری بھرکم سرمایہ کاریاں اور معاہدے ہیں۔ یہ سرمایہ سرکاری بینکوں سے نہیں لیا جارہا جیسا کہ بعض لوگ سمجھ رہے ہیں۔ 
حقیقت یہ ہے کہ بیشتر معاہدے اعلانیہ ہوئے۔ مثال کے طور پر چین کی اسلحہ ساز کمپنیوں کے گروپ ”نورینکو“ کے ساتھ معاہدہ صنعتی پیداوار کے تحت کیا گیا۔ اسی طرح چینی کمپنی ”سائنوبک“ کے ساتھ سابک کا معاہدہ پولی کاربن کی پیداوار کےلئے عظیم الشان فیکٹری قائم کرنے کی غرض سے کیا گیا۔ مقصد سعودی پیٹروکیمیکل کے شعبے کو اہم کردارکا حامل بنانا ہے۔ پیٹروکیمیکل کا شعبہ چین میں بھاری صنعتی ترقی میں معاون ثابت ہوگا۔ چین کیساتھ گاڑیو ںکی تیاری، الیکٹرانک آلات ، گھریلو سامان اور طبی مصنوعات وغیرہ میں بھی اس سے مدد ملے گی۔ چین کا مشرق وسطیٰ میں کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں لہذا چین کسی بھی مسئلے میں نہ تو سعودی عرب کا معاون ثابت ہوگا اور نہ ہی اس کے کسی معاملے کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والا فریق بنے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: