Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شوہر کے مال میں بیوی کا حصہ

ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی کمائی، اپنی جائداد اور اپنے روپے پیسوں کا خود مالک و مختار ہوتا ہے اور اس میں اپنی مرضی سے تصرف کرنے کااسے حق حاصل ہوتا ہے۔ یہ مال دولت چاہے کسی کو محنت مزدوری اور ملازمت سے حاصل ہو یا کسی سے وراثت میں ملی ہو یا ہدیہ تحفہ میں ملی ہو یا ملکیت کے کسی بھی جائز طریقہ سے وہ مالک ہوا ہو البتہ شریعت نے مال و دولت میں اللہ کا ، اپنی ذات کا، بیوی بچوں  کا اور دیگر رشتہ داروں کا بھی حق متعین کردیا ہے۔ ان حقوق کی ادائیگی  ضروری ہے۔ کسی کی حق تلفی یا مال و دولت  میں غیر شرعی اور ناجائز تصرف پر عنداللہ باز پرس ہوگی، آدمی گنہگار اور عذاب کا مستحق ہوگا۔
    زندگی میں شوہر یا کسی بھی شخص کی کمائی میں کسی دوسرے کا ایسا کوئی قانونی حق نہیں کہ وہ جتنا بھی کمائے اس میںاتنے فیصد فلاں کا حصہ ہے یا اتنے فیصد فلاں رشتہ دار کا حق ہے۔ ہاں جب کسی کا انتقال ہوجائے تو متوفی کی جائداد شرعاً اس کے ورثا کی ملکیت ہوجاتی ہے۔ ورثا اور ان کے حصوں کی تفصیل شریعت نے متعین کردی ہے۔ شوہر پر بیوی بچوں کا یہ حق  ہے اور شریعت  نے اسے لازم قرار دیا ہے کہ وہ بیوی بچوں کی رہائش اور کھانے پینے کی ضروریات پوری کرے اور اس میں اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق خرچ کرے۔ ایک حدیث مبارکہ میں یہ الفاظ بھی منقول ہوئے ہیں:
      ـ" تم جو کھاؤ وہی بیوی کو کھلاؤ اور تم جو پہنو وہی بیوی کو پہناؤ۔"  
    شوہر بیوی بچوں کی ضرورت پوری نہ کرے اور اس میں کوتاہی کرے تو وہ گنہگار ہوگا۔ عنداللہ باز پرس ہوگی۔ بیوی اپنے حق کے مطالبہ کیلئے اسلامی عدالت سے بھی رجوع ہوسکتی ہے بلکہ ایک حدیث سے یہ اجازت بھی معلوم  ہوتی ہے کہ شوہر کی اطلاع کے بغیر اس کے مال سے اپنے اور بچوں کے اخراجات دستور کے موافق لے لے۔ حدیث میں "معروف" کا لفظ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عرف میں  کھانے پینے کے جو ضروری اخراجات ہیں شوہر وہ بھی نہ دے اور اس میں کوتاہی کرے تو اس حد تک بیوی اپنا حق وصول کرسکتی ہے۔ اس سے زیادہ کی اس کیلئے قطعاً اجازت نہیں۔ ضروریات زندگی کی تکمیل کے علاوہ مزید کوئی متعین طور پر قانونی حق شوہر کی زندگی میں شوہر کے مال میں بیوی کا نہیں۔ ہاں شوہر کے انتقال کے بعد  اس کی جائداد میں بحیثیت وارث بیوی کا حصہ اولاد ہونے کی صورت میں 1/8 اور اولاد نہ ہونیکی صورت میں 1/4 ہوتا ہے۔
    شوہر کے مالی تصرفات میں معاشرہ میں دونوں طرف سے افراط و تفریط پائی جاتی ہے۔ بعض شوہر بیوی بچوں کی طرف سے کوتاہی  برتتے ہیں۔ خصوصاً بیویوں کے ساتھ  "حسن معاشرت"  کا لحاظ نہیں رکھتے جس کا قرآن پاک میں حکم دیا گیاہے۔ احادیث میں بیوی بچوں پر خرچ کرنے کو بھی باعث اجروثواب اور افضل صدقہ قرار دیاگیا ہے بلکہ ایک حدیث میں یہ فرمایا گیا کہ مال و دولت  میں سب سے پہلے خود اپنا حق ہے پھر بیوی بچوں کا اور اس کے بعد دیگر رشتہ داروں کا۔ شوہر کو چاہیئے کہ اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق خوشدلی سے بیوی بچوں پر خرچ کرے اور ان کی ضروریات کو احسن طریقہ پر پورا کرنے کی کوشش کرے۔ دوسری طرف بعض بلکہ اکثر بیویوں کا رجحان اور خیال یہ ہوتا ہے کہ شوہر پوری کمائی بیوی بچوں پر ہی خرچ کرے۔ اسکی ایک پائی بھی دوسرے رشتہ داروں پر خرچ نہ ہو۔ یہ خیال بھی شریعت کے مزاج سے ہم آہنگ نہیں۔ اگر  اللہ نے کسی کو مال و دولت سے نوازا ہو یا کسی کی آمدنی مناسب حد  تک بھی ہو اور اس کے بھائی بہن یا کوئی رشتہ دار ضرورت مند و مستحق ہوں تو ایسے شخص کی  اخلاقی ذمہ داری بلکہ شرعی حق ہے کہ وہ آرام و آسائش اور تعیش میں اپنی دولت  اڑانے کے بجائے کفایت شعاری سے کام لیتے ہوئے مقدور  بھر دوسرے ضرورت مند رشتہ داروں کا بھی خیال رکھے اور یہ سب کچھ اللہ کی رضا حاصل کرنے کے جذبہ سے ہو، نمود ونمائش کیلئے نہیں۔ بہرحال مالی تصرفات میں بھی حتی الامکان اعتدال اور میانہ روی ملحوظ رہے۔ کسی کی حق تلفی اور کوتاہی نہ ہونے پائے۔

شیئر: