Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ملازم سعودی بہنوں کے معاملے میں صبر سے کام لیا جائے

محمد خضر عریف۔المدینہ
    سعودی شہری اور مقیم غیر ملکی وطن عزیز سعودی عرب کے ہر علاقے میں سعودی خواتین کو ملازمت کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ ہر بڑے ، چھوٹے تجارتی مرکز یا مال میں سعودی ملازمائیں مصروف عمل نظر آنے لگی ہیں۔پہلے یہ سب کچھ نہیں تھا ۔ گزشتہ ایک برس کے دوران خواتین ملازمتوں کیلئے بڑے پیمانے پر نکلنے لگی ہیں ۔سعودی عوام ان کی بابت مہم جوئی کررہے ہیں۔بہت سارے لوگ آرزومند ہیں کہ خواتین گاہکوں کی مدد اچھی طرح سے کرینگی۔تمام شعبوں میں سامان فروخت کرنے کی کارروائی مناسب شکل میں انجام دینگی۔ خواتین ایسی دکانوں میں بھی کام کررہی ہیں جو ملبوسات فروخت کررہی ہیں۔ ایسی دکانوں میں بھی ملازم ہیں جو کھانے پینے کی اشیاء یا مٹھائیاں فراہم کررہی ہیں۔ مشاہدہ بتا رہا ہے کہ سعودی خواتین گاہکوں کو بہتر سے بہتر خدمت فراہم کرنے اور ان کا دل جیتنے میں ادنیٰ فروگزاشت سے کام نہیں لے ر ہیں۔ ان کا طریقہ کار تہذیب اور شائستگی والا ہے۔ میں یہ مانتا ہوں کہ کوئی بھی نیا تجربہ ہوتا ہے تو اس کی بابت بعض لوگ اچھے تاثر کا اظہار کرتے ہیں ۔ پسندیدگی کے اظہار میں بخل سے کام نہیں لیتے جبکہ دیگر لوگ نئے تجربے کو نہ صرف یہ کہ مسترد کرتے ہیں بلکہ اس پر ناک بھوں بھی چڑھاتے ہیں۔
    یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ کسی بھی شکل میں اور کہیں بھی خواتین کے روزگار کو پسند نہیں کرتا۔انہیں نہ تو نرس کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے اور نہ ہی ڈاکٹر کی حیثیت میں ان کے کام کے حق میں ہے اور نہ ہی طالبات کو تعلیم دینے کی اجازت دینا چاہتا ہے۔ ان لوگوں سے ہم یہی کہیں گے کہ یہ آپ کی اپنی سوچ ہے ، یہ آپ کا اپنا نقطہ نظر ہے ۔ آپ اپنی سوچ کے مطابق اپنی زندگی گزاریئے، آپ اپنی بیٹیوں ، بہنوں اور بیویوں کو کام کرنے کی اجازت دیں ، نہ دیں یہ آپ کا اپنا عمل ہے۔ کچھ لوگ وہ ہیں جو خواتین کی ملازمت کو معاشرے کیلئے مفید سمجھتے ہیں۔یہ چاہتے ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کام کریں۔ان کی نظر میں اس حوالے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جس طرح دیگر ممالک میں خواتین ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر آزما رہی ہیں، ویسے ہی مملکت میں بھی سعودی خواتین ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں۔
    سعودی عرب میں خواتین ملازم دینی و سماجی روایات کی پابندی کررہی ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس حوالے سے کسی کو کسی طرح کی کوئی شکایت نہیں۔ہماری خواتین بڑی حد تک اہل بھی ہیں اور سماجی اخلاقیات کی پابند بھی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس تجربہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ میرے کئی دوستوں اور شناساؤں نے یہ بات کہی کہ سامان فروخت کرنیوالی سعودی ملازماؤں کو اشیاء کے نرخ معلوم نہیں ہوتے۔خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء کا نہ تو نرخ معلوم ہوتا ہے اور نہ ہی وزن کا اندازہ ہوتا ہے ۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی گاہک کسی سامان کے نرخ کے بارے میں دریافت کرتا ہے اور وہ لکھے ہوئے نرخ کے پڑھنے میں غلطی کرجاتی ہیں۔وہ عام طور پر سامان کی قیمت بتانے کیلئے کسی غیر ملکی سیلز مین کا انتظار کرتی ہیں۔ایک صاحب نے بتایا کہ وہ میوہ جات کی دکان میں گیا ،خاتون نے حقیقی نرخ سے کافی کم قیمت بتائی ۔ اسی دوران غیر ملکی سیلز مین آیا اور اس نے صحیح قیمت بتائی جسے سن کر گاہک نے میوہ خریدنے سے انکار کردیا۔گاہک نے سخت موقف اختیار کیا۔ اس نے معاملے کو دھوکہ دہی کا عنوان دیدیا۔یہ اور اس طرح کی غلطیاں سعودی ملازم خواتین کررہی ہیں۔ یہ تجربے کی کمی کا نتیجہ ہیں۔ ایک اور صاحب نے بتایا کہ سامان فروخت کرنیوالی سعودی خواتین سامان کا وزن کرنے اور بتانے میں بھی غلطیاں کررہی ہیں۔ اس سلسلے میں بھی وہ صحیح جواب دینے کیلئے غیر ملکی سیلز مین کی طرف ہی دیکھ رہی ہیں۔ شکایت کرنے والے نے یہ بھی شکایت کی کہ میں نے دیکھا کہ غیر ملکی سیلز مین سعودی خاتون کو وزن کرنے کا طریقہ کئی بار بتا چکا تھا پھر بھی اس کی سمجھ میں بات نہیں آرہی تھی۔ ان سب سے میرا کہنایہی ہے کہ اپنی سعودی بہنوں اور بیٹیوں کے معاملے میں صبر کا مظاہرہ کریں۔ ابھی یہ نئی نئی اس میدان میں اتری ہیں۔ رفتہ رفتہ پکی ہوجائیں گی۔

شیئر: