Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتیں

جس قوم میں شہادت کا جذبہ ہو اُس سے آپ لڑ نہیں  سکتے،مذاکرات کے ذریعے ہی مسائل کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے
 
صلاح الدین حیدر

ہفتہ وار کالم کے لیے موضوع کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ قدرت نے مدد اور ہندوستانی جہازوں کو گرا اور اُن کے پائلٹوں کو گرفتار کرکے آسانی پیدا کردی۔ ہند کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ اُس نے ہمارے علاقوں میں گھس آنے کی سزا پائی۔ تعداد میں ہند کو ہم پر ہمیشہ سے برتری حاصل رہی ہے اور شاید ہمیشہ ہی رہے گی، لیکن جنگیں محض ہتھیاروں سے نہیں جذبے سے لڑی جاتی ہیں۔ مسلمان ہونے کے ناتے ہمارا ایمان ہے کہ ملک و قوم کی حفاظت کیلئے کوئی بھی قربانی بڑی نہیں ہوتی۔ محاذ پر جانے والے سپاہیوں یا رضاکار جذبۂ ایمانی سے لبریز ہوتے ہیں۔ جیت گئے تو غازی ورنہ شہید، دونوں صورتوں میں راہِ حق کا سپاہی اﷲ وحدہ لاشریک کے قرب کا حق دار ہوتا ہے۔ یہی اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ اور قرآن حکیم کے مطابق رب تعالیٰ کبھی اپنے وعدے سے نہیں پھرتا۔ ہمارا تو یہ ایمان ہے، لیکن آج ہی ہندوستانی ٹیلی وژن پر ایک تجزیہ نگار نے یہ بات صاف صاف دہرادی کہ جنگ کے دوران ایک کو زندگی پیاری ہوتی ہے اور دوسرے کو موت۔ جس قوم میں شہادت کا جذبہ ہو اُس سے آپ لڑ تو سکتے ہیں لیکن اُس کے جذبے کو کم نہیں کرسکتے۔ یہ ایک ہندوستانی شہری کہہ رہا تھا۔ قرآن مجید کا سبق دُنیا بھی سمجھنے لگی ہے، یہی وجہ ہے کہ کئی ایک مشرکین یا کسی اور عقیدے پر ایمان رکھنے والے، آج مشرف بہ اسلام ہورہے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کے نظام کو کوئی نہیں سمجھ سکتا، لیکن اُس کے کلام میں اتنی قوت ہے کہ وہ دلوں کو گرما دیتا ہے۔پاکستان اور ہند کے درمیان تین جنگیں لڑی گئیں، پہلی 1948 میں کشمیر میں، جس پر اُس وقت کے ہندوستانی وزیراعظم پنڈت نہرو بھی حواس باختہ ہوگئے اور فوراً ہی اقوام متحدہ سے جنگ بندی کی درخواست اس وعدے کے ساتھ کی کہ کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دیا جائے گا تاکہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرسکیں، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے، جنگ بندی تو ہوگئی، لیکن کشمیریوں کو حقوق دینے کے بجائے اُن پر پچھلے کئی برسوں سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ کشمیری رہنمائوں میر واعظ عمر فاروق، علی گیلانی، کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے عورت ہونے کے باوجود ہند کو للکارا۔ اُن کے ہی جملے تھے اگر ہند نے ہمیں اپنا حق نہیں دیا تو 1947 کا سبق بھول جائے گا۔ ہر جگہ، شہر شہر، قریہ قریہ، گائوں گائوں، ہندوستانی ترنگا دیکھنے میں بھی نہیں آئے گا۔ اُن کی تحریک یقیناً کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔یہ سطور رقم کرتے وقت مجھے 6 ستمبر 1965 کی یاد آگئی جب ہند نے لاہور پر حملہ کیا، اُن کے اُس وقت کے آرمی چیف نے لاہور جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، لیکن ہندوستانی شاید بھول گئے تھے کہ پاکستان ہمیں تحفے میں نہیں ملا۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا انعام تھا اور اس ملک کو حاصل کرنے کے لیے لاکھوں لوگوں نے جان، مال، عزت آبرو کی قربانیاں دی تھیں۔ اس پر قبضہ کرنے کا خواب کبھی بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔  کاش ہند یہ بات سمجھ لیتا، لیکن کانگریس تو خیر طاقت کے نشے میں ہی چُور تھی، بی جے پی تو شرانگیزی پر اُتر آئی ہے۔ اٹل بہاری واجپئی نے پھر بھی پاکستان کی جانب امن و آشتی کا ہاتھ بڑھایا تھا، لیکن اُن کے شاگردوں نے تو نفرت کی انتہا کردی۔
شکر ہے آج عمران خان نے خارجہ امور کو معیشت کی بحالی کی طرح اہمیت دی اور اُنہیں بلاشبہ توقع سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ دُنیا آج پاکستان کو تحسین کی نگاہ سے دیکھنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ اس سے پہلے وطن عزیز کو اقوام عالم میں وہ حیثیت نہیں ملی تھی جو اب حاصل ہے۔ 1965 کی جنگ شروع ہوئی تو اُس وقت کے صدر مملکت نے سربراہ افواج پاکستان کی حیثیت میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے دلوں کو گرما دینے والی تقریر کی… اُنہی کے الفاظ جو مجھے آج بھی یاد ہیں، قارئین کیلئے دہرائے دیتا ہوں۔ ایوب خان (جو خود ایک جنرل تھے) نے جہاں اور بہت کچھ کہا، وہیں اُن کے دو جملوں نے قوم میں ایک نیا جذبہ پیدا کردیا۔ پوری قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہوگئی۔ ننھے منے بچّے سائیکلوں پر یا پیدل ہی محاذِ جنگ پر سپاہیوں کے لیے کھانا، تحفے تحائف، پھولوں کے ہار پہنچانے کیلئے بے تاب تھے۔ ایوب خان نے کہا تھا، ہند نہیں جانتا کہ اُس نے کس قوم کو للکارا ہے، جس ملک کے لوگوں کے دل لاالٰہ الا اﷲ محمد الرسول کی صداؤں سے دھڑکتے ہیں، اُس پر کوئی قابو نہیں پاسکتا۔ ہم وطنوں کو مخاطب کرکے اُنہوں نے درخواست کی کہ آگے بڑھو اور اُس وقت تک چین سے مت بیٹھنا جب تک ہندوستانی توپوں کو خاموش نہ کرادو۔ یہی کچھ پیغام عمران خان نے ہند کے فضائی حملے کے بعد قوم سے خطاب میں ناصرف پاکستانیوں بلکہ ہند کے لوگوں کو بھی دیا کہ جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔ گفت و شنید کے ذریعے ہی مل بیٹھ کر غربت اور دوسرے گوناگوں مسائل (جس کا کہ ہند اور پاکستان کو سامنا ہے) کا حل نکالنے کی کوشش کی جائے۔
  26 فروری کو ہندوستانی طیارے، جو کشمیر میں لائن آف کنٹرول پار کرکے آزاد کشمیر کے علاقے بالاکوٹ کے گائوں جبہ میں اپنے بم گرا کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے، انہیں بھی پاکستانی طاقت، قوت، تربیت کا اندازہ شاید بالکل ہی نہ تھا۔ دشمن نے تو رات کے اندھیرے میں ہماری سرحدوں کی خلاف ورزی کی تھی، ہماری ایئرفورس نے دن کے اُجالے میں اس کا جواب دیا اور سرخرو ہوئی۔ ہند کے 2 مگ 21 ہوائی جہاز اُن پر حملہ آور ہونے آئے تھے کہ مار گرائے گئے۔ ایک پائلٹ زخمی حالت میں گرفتار ہوا، جبکہ دوسرا افواج پاکستان کی حراست میں ہے۔ ایک جہاز تو ہمارے علاقے میں گر کر تباہ ہوا، دوسرا کشمیر کے علاقے میں جاگرا۔ پاکستان نے ہند کو سبق سِکھادیا تھا اور اب شاید اُسے ندامت کا احساس ہو۔ اُمید تو ہے کہ ہند کی جانب سے عقل و ہوش سے کام لے کر پاکستانیوں کے جذبۂ خیرسگالی کا جواب مثبت انداز میں دیا جائے گا۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو مودی صاحب جانیں اور اُن کے رفقائِ کار۔

شیئر: